عید قربان سے معاشی سرگرمیوں میں اضافہ

230

ابھی ابھی دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرح مسلمانانِ پاکستان بھی سنت ِ ابراہیمی کے فریضے کی ادائیگی سے فارغ ہوئے ہیں۔ عیدالاضحیٰ جسے عید قربان بھی کہا جاتا ہے۔ جس کے بارے میں ایک مرتبہ صحابہ کرام نے رسول اکرمؐ سے پوچھا ’’قربانی کیا ہے؟ جواب ملا ’’یہ تمہارے والد سیدنا ابراہیمؑ کی سنت ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ) لیکن جس طرح یہ سنت ابراہیمی ہمارے معاشرے میں ایک رسم، روٹین اور دکھاوا کی شکل اختیار کرچکی ہے اس کو دین اسلام نے ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے ’’اللہ کو نہ تو قربانی کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ اس کا خون۔ اس کی بارگاہ میں تو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘۔
کورونا وائرس کی وبا جس نے دنیا بھر میں فروری سے شدت اختیار کی تھی ابھی تک اس میں کمی نہیں آئی ہے۔ عالمی معیشت تہہ و بالا ہوچکی ہے، تجارت، صنعت، سیاحت، تعمیرات یا خدمات تمام ہی شعبے بُری طرح متاثر ہوچکے ہیں، لاکھوں لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں، ہزاروں کاروبار ختم ہوچکے ہیں، عالمی ادارہ صحت اب یہ خبر دے رہا ہے کہ اس کی دوسری لہر دسمبر میں دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے اور یہ بچوں میں بھی پھیل سکتا ہے۔
پاکستانیوں نے اس مرتبہ عیدالاضحیٰ کورونا کے سایے میں منائی، یوں تو پاکستان میں کورونا کی شدت میں کمی آرہی ہے۔ 2 لاکھ 82 ہزار میں سے 2 لاکھ 56 ہزار افراد صحت یاب ہوچکے ہیں۔ سندھ میں شرح اموات 1.8 فی صد ہے جب کہ کل ہلاکتوں کی تعداد 6045 ہے، اگر اب اس کا مقابلہ امریکا سے کریں تو وہاں پونے دو لاکھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ شدت میں کمی کے باعث ریسٹورنٹس، سینما، پبلک ٹرانسپورٹ، مارکیٹیں اور فضائی سفر، کھیل کے میدان اور مزارات وغیرہ پر عائد پابندیاں ختم کرکے اُن میں نرمی کی جارہی ہے۔
عید قربان پر جانوروں کی قربانی ایک اہم معاشی سرگرمی ہے جس میں بے شمار لوگوں کو، جو چارہ بیچنے والے ہیں، ٹرانسپورٹر ہیں، قصائی ہیں یا مویشی منڈیوں میں چھوٹے موٹے کام کرنے والے ہیں ان کو روزگار ملتا ہے، سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس موقع پر آمدنی کا بہائو شہروں سے دیہاتوں کی طرف ہوتا ہے۔ لیکن مسلمانوں کا یہ اہم تہوار بھی کورونا کے اثرات سے محفوظ نہ رہ سکا۔ پچھلے سال مجموعی طور پر عید قربان کے موقع پر 200 ارب روپے کا کاروبار ہوا تھا۔ اس سال ایک تو ملک میں معاشی سست روی رہی، بے روزگاری میں اضافہ ہوا، قوتِ خرید میں کمی ہوئی، دوسرے بیرونی ممالک میں بیٹھے ہوئے پاکستانی جو اس موقع پر رقوم بھیجتے تھے اس میں کمی ہوئی۔ اس وجہ سے بڑے شہروں میں قربانی کم ہوئی۔ دیہاتوں میں اور چھوٹے قصبوں میں زیادہ فرق نہیں آیا۔ اس کے علاوہ مختلف رفاعی اور سماجی اداروں نے آن لائن قربانی کی سہولت فراہم کی۔ الخدمت ویلفیئر سوسائٹی نے بھی ایک مستعد اور منظم آن لائن قربانی کا نظام قائم کیا تھا اور اس نے پچھلے سال کی چرم قربانی کی آمد و خرچ کا حساب بھی عوام کے سامنے پیش کیا جس کے تحت چرم قربانی کی آمدنی سے تقریباً ساڑھے چار کروڑ روپے کے مختلف مدآت میں رفاعی اور سماجی کام کیے گئے۔
مختلف سروے کے مطابق اس سال عید قربان کے موقع پر سو سے 110 ارب روپے کا کاروبار ہوا اس طرح پچھلے سال کے مقابلے میں چالیس سے پینتالیس فی صد کمی ہوئی۔ دوسری طرف کھالوں کی قیمتوں میں بہت کمی واقع ہوئی لیدر کی مصنوعات بنانے والوں کا کہنا ہے کہ ان کا مال زیادہ تر ایکسپورٹ ہوتا ہے اس سال کورونا کے باعث امریکا و دیگر یورپی ممالک میں لیدر پروڈکٹس کی طلب میں کمی ہوئی اسی لیے کھالوں کی قیمتیں بھی گر گئی ہیں۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ ملکی معیشت میں کہیں کہیں بہتری کے آثار نظر آرہے ہیں۔ ٹیکسٹائل سیکٹر کو برآمدی آرڈر مل رہے ہیں۔ تعمیراتی شعبے میں بھی حرکت نظر آرہی ہے۔ اسٹاک مارکیٹ میں حصص کی خریدو فروخت میں بہتری ہورہی ہے اور ہفتے کے آخر میں انڈکس پوائنٹس میں 783 کا اضافہ ہوا لیکن تاحال مختلف شعبوں میں بہتری کی شدید ضرورت ہے۔ مثلاً چھوٹی اور درمیانی سطح کی صنعتوں اور کاروبار کو سہارا دینے کی ضرورت ہے۔ زرعی شعبے میں گندم اور گنے کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ اسی طرح ایف بی آر پچھلے سال ٹیکس کا ہدف پورا کرنے میں ناکام رہا۔ ڈاکٹر عشرت حسین کی سفارشات کے مطابق اس میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں بجلی کے نرخ بہت زیادہ ہیں اس کے لیے نجی بجلی گھروں کے مالکان سے مذاکرات کرکے انہیں نیچے لانا بہت ضروری ہے۔ ملکی معیشت جو سست روی کا شکار ہے انہی اقدامات سے معیشت کا پہیہ چل سکے گا۔