(یہ خاکہ اطہر ہاشمی صاحب کی زندگی میں ۵؍ اکتوبر ۲۰۰۱ء کو’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ میں شائع ہوا تھاَ ۔ اس طویل خاکے سے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے)
یادوں کی کھڑکی کھول کر دیکھیے تو بڑے دلچسپ مناظر نظر آتے ہیں۔ پر بات تو وہی ہے کہ… ’کون اُٹھے اور کھڑکی کھولے‘۔ یہ دیکھیے… یادوں کی ایک کھڑکی کھلی… اس کھڑکی سے ہمیں روزنامہ ’’جسارت‘‘ کراچی کے ایک سابق ’’مدیر منتظم‘‘ جناب عرفان غازی اپنے دفتر میں بیٹھے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایک روز کسی شوخ و شنگ اور حد درجہ شریر قسم کے ستم ظریف صحافی نے دفتر ’’جسارت‘‘ کے نوٹس بورڈ پر یہ ’’خوشخبری‘‘ لکھ کر آویزاں کردی کہ ہمارے ایگزیکٹو ایڈیٹر محترم عرفان غازی فلاں تاریخ کو اتنے بج کر اتنے منٹ پر مسکراتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔ غازی صاحب یوں تو بڑے نرم مزاج آدمی ہیں۔ (مگر یہ انکشاف بھی اُس وقت ہوا جب وہ پہلی بار اسلام آباد میں ہمارے گھر تشریف لائے)۔ لیکن غالباً بتقاضائے عہدہ و منصب، وہ ہمہ وقت نہ صرف بے حد سنجیدہ بلکہ بظاہر بہت غصے کی حالت میں رہا کرتے تھے۔ بڑے بڑے جغادری بزرگ اُن کی اُصول پسندی اور نظم وضبط کی پابندی (کرنے اور کروانے) سے کانپتے رہتے تھے۔ ایسے میں انہیں ایک نوجوان ’’سب ایڈیٹر‘‘ کی طرف سے چھٹی کی ایک درخواست موصول ہوتی ہے:
’’3مئی 1979ء کو فدوی کی خالہ محترمہ کی دُختر نیک اختر کی شادی ہے۔ اس شادی میں شرکت کے لیے عارض کو ایک ماہ کی رُخصت استحقاقی مرحمت فرمائی جاوے۔ عین نوازش ہوگی‘‘۔ درخواست پڑھ کر ایگزیکٹو ایڈیٹر صاحب کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اُنہوں نے درخواست گزار کو فی الفور اپنے دفتر میں طلب فرمالیا اور درخواست سامنے رکھ کر اپنے مخصوص طنزیہ لہجے میں باز پُرس فرمائی: ’’کیوں میاں صاحبزادے! اپنی خالہ محترمہ کی دُختر نیک اختر کی شادی میں ایک مہینے تک آپ کیا کردار ادا فرماویں گے؟‘‘ میاں صاحبزادے نے شرما کر سر جھکاتے ہوئے بڑی سعادت مندی اور متانت سے عرض کیا: ’’دولھا کا!‘‘ یہ ’’صاحبزادے‘‘ جناب اطہر علی ہاشمی تھے۔ اُن کی اِس حد درجہ سنجیدگی اور متانت کو دیکھ کر غازی صاحب بھی اپنی مسکراہٹ پر قابو نہ رکھ سکے۔ غالباً یہی وہ تاریخی موقع تھا جب غازی صاحب ’’مسکراتے ہوئے دیکھے گئے‘‘ تھے۔ لوگ کہتے تھے کہ غازی صاحب کو ’’مسکروانے‘‘ کی جرأت بھی صرف اطہر ہاشمی صاحب ہی کرسکتے تھے۔
اطہر ہاشمی صاحب پُر مزاح سے پُر مزاح پھلجھڑی چھوڑتے وقت بھی اپنے چہرے پر ایسی شدید سنجیدگی طاری کیے رکھتے ہیں کہ ہمارے دوست خلیل اللہ فاروقی جیسا ’’چلتا پُرزہ‘‘ بھی اُن کی چال میں آنے سے بچ نہ پایا۔ خلیل اللہ نے خود ایک روز یہ قصہ سنایا:
’’جب میں نے ’’جسارت‘‘ جوائن کیا تو مجھے اطہر ہاشمی صاحب کی شاگردی میں دے دیا گیا۔ ہاشمی صاحب نائٹ شفٹ انچارج تھے۔ میں اُن سے ٹیلی پرنٹر پر آنے والی خبروں (Creeds) کا ترجمہ کرکے خبر بنانے کا کام سیکھ رہا تھا۔ جب ترجمے میں رواں ہوگیا تب بھی اکثر ایسا ہوتا کہ اگر کسی فقرے کے ترجمے سے مطمئن نہ ہوتا تو اطہر ہاشمی صاحب کے حضور حاضر ہو جاتا۔ اُن کو اپنا ترجمہ دکھاتا اور اُن سے کہتا: ’’دیکھیے اِس جملے کا میں نے یہ ترجمہ کیا ہے۔ اس کو دیکھ کر آپ کو کچھ عجیب سا تو محسوس نہیں ہو رہا ہے؟‘‘ ہاشمی صاحب پوری توجہ اور بڑے غور سے پورا فقرہ پڑھتے۔ پھر مکمل اطمینان اور نہایت سنجیدگی سے فرماتے: ’’نہیں، اس کو دیکھ کر مجھے تو عِجابت محسوس نہیں ہو رہی ہے‘‘۔ حاطب بھائی! بخدا ایک طویل عرصے تک یہی سمجھتا رہا کہ یہ ’عِجابت‘ کا لفظ ’عجیب‘ ہی سے نکلا ہے۔ میں اطہر ہاشمی صاحب کو بہت بعد میں سمجھا۔ خدا اُن سے سمجھے!
کچھ قصے نیلو بھابھی (یعنی اُن کی ’’خالہ محترمہ کی دُختر نیک اختر‘‘) نے بھی، جب وہ ہمارے گھر اسلام آباد آئیں تو، سنائے۔ کہنے لگیں: ’’تم کو یاد ہوگا کہ پہلے ان کے پاس ویسپا ہوتی تھی۔ مجھے اُسی پر بٹھا کر لیے لیے پھرتے تھے۔ اسکوٹر پر بیٹھنا میرے لیے بہت مشکل تھا۔ میں پھسلنے لگتی تو فریاد کرتی… اطہر میں پھسل رہی ہوں … اطہر میں پھسل رہی ہوں… اور یہ اسکوٹر روکنے کے بجائے بڑی سنجیدگی سے مشورہ دیتے… بھئی ابھی مت پھسلو!‘‘
ایک روز ’جسارت‘ کے صفحہ خواتین کی سابق نگراں عطیہ اقبال زیدی نے (کہ وہ ’’زیدی‘‘ تو ہیں مگر ’’سُنّی زیدی‘‘ ہیں) یہ قصہ سنایا:
’’رمضان کے دن تھے۔ صفحہ کی تیاری میں دیر ہوگئی تھی۔ افطار کا وقت قریب آگیا تھا۔ دفتر کی اجتماعی افطاری میں سے میرا حصہ میرے کمرے میں بھجوا دیا گیا۔ میں نے میگزین انچارج اطہر ہاشمی صاحب کو فون کرکے اُن سے درخواست کی کہ افطار کا وقت ہوجائے تو مجھے بھی بتا دیجیے گا۔ اُنہوں نے وعدہ کرلیا۔ مگر میں انتظار کرتی رہ گئی۔ اذان ہوئی تو وہ افطارکرنے میں ایسے مگن ہوئے کہ مجھے بتانا بھول گئے۔ جب کمرے کے باہر سے مجھے پلیٹوں سے چمچے ٹکرانے کی آوازیں آنے لگیں تو میں نے وہیں سے پکار کر پوچھا: ’’ہاشمی صاحب! کیا اذان ہوگئی ہے؟‘‘
بجائے معذرت خواہانہ لہجے میں شرمندگی کا اظہار کرنے کے، نوالہ بھرے منہ سے فخریہ لہجے میں جواب آیا: ’’جی ہاں! ہم لوگوں کی اذان تو ہوگئی ہے‘‘۔
1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد جب جونیجو صاحب نے ’’مارشل لا اُٹھایا‘‘ اور جمہوریت کاتخت بچھایا تو ملک میں سیاسی جلسے جلوس بھی شروع ہوگئے اور سر پھٹول بھی۔ سرعام سر پھٹول کرنے والوں کو تحمل و برداشت کا مشورہ دیتے ہوئے اطہر ہاشمی صاحب نے ’’جسارت‘‘ کے ایک اداریے میں لکھا: ’’ابھی تو جمہوریت کا تَقاطُرِ امطار ہی ہوا ہے …‘‘ بس یہ فقرہ پڑھتے ہی طبیعت رواں ہوگئی۔ جس دن یہ اداریہ چھپا، اُسی دن ’’تقاطر امطار‘‘ کے عنوان سے ایک کالم لکھ مارا، جو اگلے روز شائع ہوا۔ اس کالم میں ایک عام قاری کی پریشانی کا نقشہ کھینچا گیا تھا کہ وہ بولایا بولایا پھر رہا ہے اور جہاں تک پہنچ پاتا ہے، لوگوں سے مل کر یا جہاں جہاں سے ممکن ہو، فون کرکرکے لوگوں سے ’’تقاطر امطار‘‘ کے معانی پوچھتا پھرتا ہے، تاکہ اداریہ سمجھ میں آسکے، مگر کہیں سے کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ اُس غریب کے پاس اخبار خریدنے کے پیسے تو ہیں مگر لغت خریدنے کے نہیں۔ آخر میں اداریہ نگار سے فریاد کرتا ہے کہ حضور میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، میری مالی حالت پر رحم کھائیں۔ اداریے میں ایسے الفاظ استعمال کیا کریں جو بغیر لغت کے سمجھ میں آجایا کریں۔ اطہر ہاشمی صاحب کی اعلیٰ ظرفی تھی کہ یہ کالم اُسی روز کتابت کرکے لگوادیا اور اگلے دن کی اشاعت میں شائع ہوگیا۔ جس روز کالم شائع ہوا اُس روز سب کی شامت آگئی۔ شام کو دفتر ’’جسارت‘‘ پہنچے تو دفتر کے کئی ساتھیوں نے ایک ساتھ دھاوا بول دیا: ’’بالکل صحیح صحیح بتانا کہ ’’تقاطر امطار‘‘ کا مطلب کیا ہے؟‘‘
(جاری ہے)
آصف جیلانی
محسوس ہوا کہ کسی قسم کی کوئی شرط وغیرہ لگ گئی ہے، سو، ہارنے والے فریق کا نشانہ بننے سے بچنے کو کہہ دیا: ’’بھائی! لغت کیوں نہیں دیکھ لیتے؟‘‘
جواب ملا: ’’دفتر کی لغت بھی آج ہی کہیں غائب ہوگئی ہے۔ جلدی بتاؤ، ورنہ آگے نہیں جانے دیں گے‘‘۔
عاجز آکر بتانا پڑا: ’’عربی میں ’’بوندا باندی‘‘ کو کہتے ہیں‘‘۔
دوستوں کے مجمع میں ایک بھگدڑ سی مچی مگر یکایک سب پلٹے اور پوچھا: ’’یہ لفظ اپنے اداریے میں کس نے استعمال کیا ہے؟‘‘
ہم نے سادگی سے بتادیا: ’’اطہر ہاشمی صاحب نے!‘‘
یہ سنتے ہی سب پر اوس پڑگئی، بھاگتے قدم رُک گئے، منہ لٹک گئے اور جوش و خروش ٹھنڈا پڑ گیا۔ معلوم ہوا کہ صبح سے اطہر ہاشمی صاحب سب سے پوچھتے پھر رہے ہیں: ’’یہ ابونثر نے کیا لکھ دیا ہے؟ مطلب کیا ہے اِس لفظ کا؟ کس اخبار کے اداریے میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے؟‘‘
ہر شخص یہ چاہتا تھا کہ اطہر ہاشمی صاحب کی معلومات میں اضافہ کرنے کا سہرا اُس کے سر بندھے۔ مگر ہر شخص کے ساتھ آج لمبا ہاتھ ہوگیا تھا۔ یہ قصہ ہاشمی صاحب کو سنایا تو کہنے لگے: ’’ہاں میاں! آج معلوم ہوگیا، جس طرح حلوائی اپنی مٹھائی نہیں کھاتا اسی طرح صحافی بھی اپنا اخبار نہیں پڑھتا‘‘۔
روتوں کو ہنسا دینا، ہم نے محاورتاً تو سن رکھا تھا۔ مگر ایک مرتبہ عملاً بھی دیکھ لیا۔ ’’جسارت‘‘ ہی میں ہمارے ایک سادہ دل، سادہ مزاج، نیک طینت اور نیک دل صحافی بھائی ہوا کرتے تھے۔ اب اُن کا انتقال ہو چکا ہے۔ اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ بہت جذباتی اور بے حد رقیق القلب تھے۔ ایک بار ایک بدتہذیب شخص سے دفتر میں اُن کی توتکار ہوگئی۔ اُس دریدہ دہن نے گالی گلوچ کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا: ’’میںتمہیں چھوڑوں گا نہیں، تمہاری ڈاڑھی پر پیشاب کروںگا‘‘۔ جس نے بھی یہ جملہ سنا دانتوں تلے اُنگلی داب لی اور اُس کی دریدہ دہنی پر دنگ رہ گیا۔ ہمارے صحافی بھائی نے بھی اس جملے کو اپنے دل پر لے لیا۔ ڈاڑھی کی توہین کا اُن کی ذہنی و قلبی کیفیت پر بہت گہرا اثر پڑا۔ وہ ہر آئے گئے کو پکڑ پکڑ کر یہ پورا واقعہ سناتے اور آبدیدہ ہو، ہو جاتے۔ ایک روز بنوری ٹاؤن جا کر اُس شخص کے خلاف فتویٰ بھی لے آئے۔ اُس زمانے میں ’’جسارت‘‘ کا میگزین سیکشن بعض وجوہ سے، محمد بن قاسم روڈ والے دفتر سے آرام باغ کے پاس منتقل ہوگیا تھا۔ ہمارے یہ صحافی بھائی میگزین سیکشن کے انچارج جناب اطہر ہاشمی کو یہ سارا قصہ سنانے کے لیے آرام باغ کے دفتر جاپہنچے۔ جب قصہ سناتے سناتے اُس دل آزار فقرے پر پہنچے تو پہلے اُن کا گلا رُندھ گیا اور پھر وہ باقاعدہ آنسوؤں اور آواز سے رونے لگے۔ تمام سامعین پر سناٹا چھا گیا۔ ہر شخص دم بخود اور نظریں چرائے بیٹھا رہا ۔ مگر اطہر ہاشمی صاحب اُٹھے اور اُن کی پیٹھ تھپتھپا کر اُن سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ اُن کی دلجوئی کی۔ اور بڑی دلسوز ی سے اُن کو دھیمے دھیمے لہجے میں تسلی دی: ’’آپ پریشان نہ ہوں اور کسی قسم کا کوئی اندیشہ دل میں نہ لائیں۔ کیوں کہ عملاً یہ ممکن ہی نہیں ہے، جب تک آپ خود اُن سے تعاون نہ کریں‘‘۔ ایک زبردست قہقہہ پڑا اور وہ خود بھی اپنے آنسو پونچھ کر اطہر ہاشمی صاحب کو مکا دکھاتے ہوئے کھسیانی مسکراہٹ سے مسکرانے لگے۔
ہاشمی صاحب کے قیامِ جدہ کے دوران میں ہم دومرتبہ عمرہ کرنے کے لیے گئے۔ پہلی بار اُن سے ملنے پہنچے تو اُنہوں نے اپنے دفتر کے ہر شعبے کی سیر کرائی۔ وہ سعودی عرب کے واحد اردو اخبار ’’اردو نیوز‘‘ کے بانیوں میں سے تھے۔ ہم یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ وہاںکوئی کام قلم کاغذ کا محتاج نہیں ہے۔ ہر کام کمپیوٹر پر ہو رہا ہے۔ ’’اُردو نیوز‘‘ کے دفتر میں پاکستان ہی کے نہیں بھارت کے بھی ’’اُردو صحافت‘‘ سے تعلق رکھنے والے کئی نامور صحافیوں سے ملاقات کا موقع ملا۔ وہاں قاعدہ شاید یہ تھا کہ پاکستان کی خبریں پاکستانی صحافیوں سے بنوائی جاتی تھیں اور بھارت کی خبریں بھارتی صحافیوں سے۔ ایک بار بھارت سے آنے والی ’’لڑائی جھگڑے اور مار کُٹائی‘‘ کی ایک چھوٹی سی ’’یک کالمی خبر‘‘ اِس سرخی کے تحت اُردو نیوز میں شایع ہوئی: ’’چاول کے کھیت میں لڑائی‘‘۔ کسی قاری نے خط لکھ کر اعتراض کیا… ’’کھیت تو دھان کا ہوتا ہے، چاول کا نہیں‘‘… مگر خبر بنانے والے لڑکے کو اصرار تھا کہ اُس کے یہاں ’’چاول کا کھیت‘‘ ہی مستعمل ہے۔ ’’نیوز ایڈیٹر‘‘ صاحب کی طرف سے معترض قاری کو دیا جانے والا جواب بہت دلچسپ تھا: ’’… جی ہاں ’’دھان کا کھیت‘‘ ہی ہونا چاہیے تھا، مگر بعض لوگ اسے ’’چاول کا کھیت‘‘ بھی کہتے ہیں۔ کیا عجب کہ لڑائی اور مار کُٹائی اسی بات پر ہوئی ہو‘‘۔ یہ جواب چیخ چیخ کر بتا رہا تھا کہ اسے کس نے تحریر کیا ہے۔
یہ بھی اُنھی دِنوں کا ذکر ہے جب ہمارے یہ صاحبِ طرز مزاح نگاراور کالم کار’’اُردو نیوز‘‘ کے ’’مدیر اخبار‘‘ (News Editor) ہوا کرتے تھے۔ سعودی عرب میں مقیم پاکستانی اُنہیں اکثر اپنی ادبی، سماجی اور سیاسی تقریبات میں مہمانِ خصوصی کے طور پر بلایا کرتے تھے۔ اطہر ہاشمی صاحب کہتے تھے:
’’بلانے والے اس اُمید پر بلاتے ہیں کہ اخبار میں خبر اچھی لگ جائے گی۔ میں بھی اُنہیں مایوس نہیںکرتا کہ بچارے اسی اُمید پر تو مہمانِ خصوصی بناتے ہیں‘‘۔ اُنھی دِنوں (بروایت مظفر اعجاز) جدہ کے ایک پاکستانی سیاست کار نے، جن کا نام ’’سلطان‘‘ تھا، سرمایہ کاری کرتے ہوئے ایک طعام گاہ کھول لی۔ (طعام گاہ وہاں ’’مطعم‘‘ کہلاتی ہے)۔ نام اس طعام گاہ کا، اُنہوں نے ’’مطعم سلطان‘‘ رکھا۔ افتتاح کے لیے تیرہ اور چودہ اگست کی درمیانی شب کا انتخاب کیا، اور صدارت کے لیے جنابِ اطہر ہاشمی کا… سبب وہی کہ شاید اِس ترکیب سے اخبار میں خبر بھی چھپ جائے اور تصویر بھی۔ تقریب شروع ہوئی تو ’’خوشامدیدی‘‘ مقررین آنے شروع ہوگئے۔ پہلے ایک آیا، پھر دوسرا آیا، پھر تیسراآیا۔ پھر جو لین ڈوری بندھی ہے تو ایک ایک کرکے سب آتے ہی چلے گئے۔ حتیٰ کہ تاریخ بدل گئی اور تیرہ سے چودہ اگست آگئی۔ صاحبِ صدر کی باری آئی تو سامعین کی آنتیں وغیرہ ’’قُل ھُواللہ‘‘ وغیرہ پڑھنے لگی تھیں۔ نبض شناس مزاح نگار نے فقط دو فقروں پر مشتمل مختصر ’’صدارتی خطبہ‘‘ دیا۔ پہلے فقرے میں ’’مطعم سلطان‘‘ کی بنیاد رکھنے والے سیاست کار کو رسمی مبارک باد دی۔ اور دوسرے فقرے میں سامعین کو یہ بات یاد دِلاکراپنی تقریر تمام کردی کہ:
’’آج ہی کی رات ہمارے اجداد نے بھی ایک ملک کی بنیاد رکھی تھی۔ آج وہ ملک بھی ’’مطعم سلطان‘‘ بنا ہوا ہے‘‘۔