محسوس ہوا کہ کسی قسم کی کوئی شرط وغیرہ لگ گئی ہے، سو، ہارنے والے فریق کا نشانہ بننے سے بچنے کو کہہ دیا: ’’بھائی! لغت کیوں نہیں دیکھ لیتے؟‘‘
جواب ملا: ’’دفتر کی لغت بھی آج ہی کہیں غائب ہوگئی ہے۔ جلدی بتاؤ، ورنہ آگے نہیں جانے دیں گے‘‘۔
عاجز آکر بتانا پڑا: ’’عربی میں ’’بوندا باندی‘‘ کو کہتے ہیں‘‘۔
دوستوں کے مجمع میں ایک بھگدڑ سی مچی مگر یکایک سب پلٹے اور پوچھا: ’’یہ لفظ اپنے اداریے میں کس نے استعمال کیا ہے؟‘‘
ہم نے سادگی سے بتادیا: ’’اطہر ہاشمی صاحب نے!‘‘
یہ سنتے ہی سب پر اوس پڑگئی، بھاگتے قدم رُک گئے، منہ لٹک گئے اور جوش و خروش ٹھنڈا پڑ گیا۔ معلوم ہوا کہ صبح سے اطہر ہاشمی صاحب سب سے پوچھتے پھر رہے ہیں: ’’یہ ابونثر نے کیا لکھ دیا ہے؟ مطلب کیا ہے اِس لفظ کا؟ کس اخبار کے اداریے میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے؟‘‘
ہر شخص یہ چاہتا تھا کہ اطہر ہاشمی صاحب کی معلومات میں اضافہ کرنے کا سہرا اُس کے سر بندھے۔ مگر ہر شخص کے ساتھ آج لمبا ہاتھ ہوگیا تھا۔ یہ قصہ ہاشمی صاحب کو سنایا تو کہنے لگے: ’’ہاں میاں! آج معلوم ہوگیا، جس طرح حلوائی اپنی مٹھائی نہیں کھاتا اسی طرح صحافی بھی اپنا اخبار نہیں پڑھتا‘‘۔
روتوں کو ہنسا دینا، ہم نے محاورتاً تو سن رکھا تھا۔ مگر ایک مرتبہ عملاً بھی دیکھ لیا۔ ’’جسارت‘‘ ہی میں ہمارے ایک سادہ دل، سادہ مزاج، نیک طینت اور نیک دل صحافی بھائی ہوا کرتے تھے۔ اب اُن کا انتقال ہو چکا ہے۔ اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ بہت جذباتی اور بے حد رقیق القلب تھے۔ ایک بار ایک بدتہذیب شخص سے دفتر میں اُن کی توتکار ہوگئی۔ اُس دریدہ دہن نے گالی گلوچ کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا: ’’میںتمہیں چھوڑوں گا نہیں، تمہاری ڈاڑھی پر پیشاب کروںگا‘‘۔ جس نے بھی یہ جملہ سنا دانتوں تلے اُنگلی داب لی اور اُس کی دریدہ دہنی پر دنگ رہ گیا۔ ہمارے صحافی بھائی نے بھی اس جملے کو اپنے دل پر لے لیا۔ ڈاڑھی کی توہین کا اُن کی ذہنی و قلبی کیفیت پر بہت گہرا اثر پڑا۔ وہ ہر آئے گئے کو پکڑ پکڑ کر یہ پورا واقعہ سناتے اور آبدیدہ ہو، ہو جاتے۔ ایک روز بنوری ٹاؤن جا کر اُس شخص کے خلاف فتویٰ بھی لے آئے۔ اُس زمانے میں ’’جسارت‘‘ کا میگزین سیکشن بعض وجوہ سے، محمد بن قاسم روڈ والے دفتر سے آرام باغ کے پاس منتقل ہوگیا تھا۔ ہمارے یہ صحافی بھائی میگزین سیکشن کے انچارج جناب اطہر ہاشمی کو یہ سارا قصہ سنانے کے لیے آرام باغ کے دفتر جاپہنچے۔ جب قصہ سناتے سناتے اُس دل آزار فقرے پر پہنچے تو پہلے اُن کا گلا رُندھ گیا اور پھر وہ باقاعدہ آنسوؤں اور آواز سے رونے لگے۔ تمام سامعین پر سناٹا چھا گیا۔ ہر شخص دم بخود اور نظریں چرائے بیٹھا رہا ۔ مگر اطہر ہاشمی صاحب اُٹھے اور اُن کی پیٹھ تھپتھپا کر اُن سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ اُن کی دلجوئی کی۔ اور بڑی دلسوز ی سے اُن کو دھیمے دھیمے لہجے میں تسلی دی: ’’آپ پریشان نہ ہوں اور کسی قسم کا کوئی اندیشہ دل میں نہ لائیں۔ کیوں کہ عملاً یہ ممکن ہی نہیں ہے، جب تک آپ خود اُن سے تعاون نہ کریں‘‘۔ ایک زبردست قہقہہ پڑا اور وہ خود بھی اپنے آنسو پونچھ کر اطہر ہاشمی صاحب کو مکا دکھاتے ہوئے کھسیانی مسکراہٹ سے مسکرانے لگے۔
ہاشمی صاحب کے قیامِ جدہ کے دوران میں ہم دومرتبہ عمرہ کرنے کے لیے گئے۔ پہلی بار اُن سے ملنے پہنچے تو اُنہوں نے اپنے دفتر کے ہر شعبے کی سیر کرائی۔ وہ سعودی عرب کے واحد اردو اخبار ’’اردو نیوز‘‘ کے بانیوں میں سے تھے۔ ہم یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ وہاںکوئی کام قلم کاغذ کا محتاج نہیں ہے۔ ہر کام کمپیوٹر پر ہو رہا ہے۔ ’’اُردو نیوز‘‘ کے دفتر میں پاکستان ہی کے نہیں بھارت کے بھی ’’اُردو صحافت‘‘ سے تعلق رکھنے والے کئی نامور صحافیوں سے ملاقات کا موقع ملا۔ وہاں قاعدہ شاید یہ تھا کہ پاکستان کی خبریں پاکستانی صحافیوں سے بنوائی جاتی تھیں اور بھارت کی خبریں بھارتی صحافیوں سے۔ ایک بار بھارت سے آنے والی ’’لڑائی جھگڑے اور مار کُٹائی‘‘ کی ایک چھوٹی سی ’’یک کالمی خبر‘‘ اِس سرخی کے تحت اُردو نیوز میں شایع ہوئی: ’’چاول کے کھیت میں لڑائی‘‘۔ کسی قاری نے خط لکھ کر اعتراض کیا… ’’کھیت تو دھان کا ہوتا ہے، چاول کا نہیں‘‘… مگر خبر بنانے والے لڑکے کو اصرار تھا کہ اُس کے یہاں ’’چاول کا کھیت‘‘ ہی مستعمل ہے۔ ’’نیوز ایڈیٹر‘‘ صاحب کی طرف سے معترض قاری کو دیا جانے والا جواب بہت دلچسپ تھا: ’’… جی ہاں ’’دھان کا کھیت‘‘ ہی ہونا چاہیے تھا، مگر بعض لوگ اسے ’’چاول کا کھیت‘‘ بھی کہتے ہیں۔ کیا عجب کہ لڑائی اور مار کُٹائی اسی بات پر ہوئی ہو‘‘۔ یہ جواب چیخ چیخ کر بتا رہا تھا کہ اسے کس نے تحریر کیا ہے۔
یہ بھی اُنھی دِنوں کا ذکر ہے جب ہمارے یہ صاحبِ طرز مزاح نگاراور کالم کار’’اُردو نیوز‘‘ کے ’’مدیر اخبار‘‘ (News Editor) ہوا کرتے تھے۔ سعودی عرب میں مقیم پاکستانی اُنہیں اکثر اپنی ادبی، سماجی اور سیاسی تقریبات میں مہمانِ خصوصی کے طور پر بلایا کرتے تھے۔ اطہر ہاشمی صاحب کہتے تھے:
’’بلانے والے اس اُمید پر بلاتے ہیں کہ اخبار میں خبر اچھی لگ جائے گی۔ میں بھی اُنہیں مایوس نہیںکرتا کہ بچارے اسی اُمید پر تو مہمانِ خصوصی بناتے ہیں‘‘۔ اُنھی دِنوں (بروایت مظفر اعجاز) جدہ کے ایک پاکستانی سیاست کار نے، جن کا نام ’’سلطان‘‘ تھا، سرمایہ کاری کرتے ہوئے ایک طعام گاہ کھول لی۔ (طعام گاہ وہاں ’’مطعم‘‘ کہلاتی ہے)۔ نام اس طعام گاہ کا، اُنہوں نے ’’مطعم سلطان‘‘ رکھا۔ افتتاح کے لیے تیرہ اور چودہ اگست کی درمیانی شب کا انتخاب کیا، اور صدارت کے لیے جنابِ اطہر ہاشمی کا… سبب وہی کہ شاید اِس ترکیب سے اخبار میں خبر بھی چھپ جائے اور تصویر بھی۔ تقریب شروع ہوئی تو ’’خوشامدیدی‘‘ مقررین آنے شروع ہوگئے۔ پہلے ایک آیا، پھر دوسرا آیا، پھر تیسراآیا۔ پھر جو لین ڈوری بندھی ہے تو ایک ایک کرکے سب آتے ہی چلے گئے۔ حتیٰ کہ تاریخ بدل گئی اور تیرہ سے چودہ اگست آگئی۔ صاحبِ صدر کی باری آئی تو سامعین کی آنتیں وغیرہ ’’قُل ھُواللہ‘‘ وغیرہ پڑھنے لگی تھیں۔ نبض شناس مزاح نگار نے فقط دو فقروں پر مشتمل مختصر ’’صدارتی خطبہ‘‘ دیا۔ پہلے فقرے میں ’’مطعم سلطان‘‘ کی بنیاد رکھنے والے سیاست کار کو رسمی مبارک باد دی۔ اور دوسرے فقرے میں سامعین کو یہ بات یاد دِلاکراپنی تقریر تمام کردی کہ:
’’آج ہی کی رات ہمارے اجداد نے بھی ایک ملک کی بنیاد رکھی تھی۔ آج وہ ملک بھی ’’مطعم سلطان‘‘ بنا ہوا ہے‘‘۔