8 اکتوبر 2001ء کو افغانستان پر حملہ، نومبر2001 کو جرمنی کے شہر بون میں استعماری دروبست کے تحت حامد کرزئی کی صدارت میں افغانستان کے لیے عبوری حکومت بنائی گئی۔ مشرف رجیم اس سیاہ واردات میں ہمہ پہلو حصہ دار تھی۔ کابل کے انصرام کے ساتھ ہی بھارت نے بالادستی حاصل کرلی۔ پاکستان بے دخل کردیا گیا۔ کرزئی اور اس کی حکومت نے پاکستان مخالف شعار اپنایا۔ مختلف محکموں اور وزارتوں میں انڈین مشیر و معاونین تعینات ہوئے۔ افغانستان سے متصل سرحدیں غیر محفوظ ہوئیں، غیر یقینی حالات پیدا ہو گئے۔ دراندازی شروع ہوئی، سرحدوں پر حملوں اور جھڑپوں کے واقعات رونما ہونا شروع ہوئے۔ ایسا ہنوز ہو رہا ہے۔ پانچ اگست کو دیر میں سرحد پار سے بھاری ہتھیاروں سے حملہ اور چمن سرحد کا حالیہ واقعہ تازہ مثال ہیں۔ آخر کار حامد کرزئی کو ماننا پڑا کہ ان کا ملک آزاد نہیں۔ امریکا سے سیکورٹی معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا۔ نئی دہلی میں بھارتی صحافیوں کو بتایا کہ پاکستان اور افغانستان برادر ملک ہیں۔ بھارت اور اس کی لابی دونوں ممالک کے مابین خلیج کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ پاکستان کے اندر بعض سیاسی حلقے اس لابی کے زیر دست و اثر ہیں۔ جبکہ پاکستان کی intelligentsia نے ان حلقوں کے مفسد و لغو بیانیے کو سنجیدہ نہیں لیا۔ حالانکہ اس کا موثر رد ہونا چاہیے، تاکہ نوجوان نسل مزید ان کے فریب میں مبتلا نہ ہوں۔
پاک افغان سرحدی شہر چمن واقعہ لے لیجیے جسے بروقت سلجھانے میں حکومت اور عوام کے نمائندے ناکام ر ہے۔ نتیجتاً حکومت و ریاست کو سبکی اُٹھانی پڑی۔ حیرت ہے کہ چمن میں جون 2020ء سے دھرنا جاری تھا۔ افغانستان کو جانے والی اہم شاہراہ بند رکھی گئی تھی۔ احتجاج کرنے والے پاکستانی حکام کی جانب سے سرحد کی بندش پر معترض تھے کہ اس اقدام سے ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد کے رزق وروزی کا وسیلہ بند ہوا۔ دھرنے میں تاجر، کاروباری لوگ اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والے متاثرین بالخصوص شریک رہیں۔ صوبے کے مختلف علاقوں سے لوگ یکجہتی کے لیے جاتے، الٹے سیدھے نعرے لگتے، تقریریں ہوتیں، بعض تبرا بازی کرتے۔ مگر اس پورے منظر نامے میں وزیراعلیٰ جام کمال، اس کی کابینہ نا ہی اسمبلی کا فورم بلا تخصیص حزب اقتدار و اختلاف معاملے کی نزاکت سمجھ سکیں۔ قلعہ عبداللہ کی انتظامیہ اور فرنٹیر کور حکام بری الذمہ نہیں ہیں۔ یوں 30جولائی کو ہجوم نے حملہ آور ہو کر سرکار کی عملداری کی دھجیاں اڑا دیں۔ نادرا مرکز نذر آتش کردیا۔ قریب قائم قرنطینہ مرکز جلا ڈالا، اور بڑھ کر سرحدی گیٹ باب دوستی توڑ ڈالا، لوٹ مار ہوئی۔ عین اسی لمحے افغانستان کی جانب سے بھی پتھرائو اور اشتعال کا ماحول بنایا گیا تھا۔ وہاں کی بے مہار فور سز سرحد پر جمع تھیں۔ یہاں تک کہ ان کی فورسز پاکستان کی حدود میں داخل ہو گئی تھیں۔ اس دوران ہزاروں افغان باشندے پاکستان سے افغانستان داخل ہوگئے۔ اُس پار سے بھی لوگ پاکستان آئے۔ ظاہر ہے کہ افغانستان جانے والے افراد میں سے شاید ہی کوئی شخص دستاویز کا حامل ہوگا۔ اور یہ معمول ہے کہ افغان باشندے پاکستان بغیر سفری دستاویزات کے آتے جاتے ہیں۔ سول و دوسری فورسز گویا یرغمال بن گئیں۔ ہجوم میں بھی لوگ اسلحہ رکھے ہوئے تھے۔ انہیں روکنے اور منتشر کرنے کی غرض سے آنسو گیس کا استعمال ہوا، فائرنگ ہوئی، خاتون سمیت چھ افراد جاں بحق ہوگئے۔ مزید برآں افغانستان کی طرف سے شر و فساد کے تدارک کے پیش نظر پاکستان کی سرحدی فورسز نے گولے داغے۔ اطلاعات ہیں کہ وہاں پندرہ افغان باشندے جاں بحق ہوئے اور درجنوں زخمی بھی ہوئے۔ دراصل دونوں جانب کی صلاح اس گڑبڑ میں شامل تھی۔ مگر ہمارے ہاں بے خبری کا عالم تھا۔ چناںچہ تحقیق ہو کہ کیوں اس لمبے عرصے دھرنے کے شرکاء سے منطقی گفت و شنید نہ کی گئی۔ صوبائی حکومت اور وہاں تعینات ایف سی ذمے داران جوابدہ ہیں۔ بالعموم اسمبلی کے اندر حزب اختلاف بھی لا تعلق نہیں ٹھیرائی جاسکتی۔ قلعہ عبداللہ کی سول انتظامیہ سے باز پرس ہو۔ اور ان افراد کے خلاف ایکشن ہو، جنہوں نے لوگوں کو سرکاری املاک اور فورسز پر دھاوا بولنے کی ترغیب دی ہے۔
یاد رکھا جائے کہ سرحد کا یہ مسئلہ بہت ہی گمبھیر ہے۔ لوگوں کو مزدوری، تجارت اور آمدو روفت سے یک لخت نہیں رو کا جا سکتا۔ سرحد کے لیے قابل قبول اور مربوط میکنزم کی ضرورت ہے۔ نیز افغانستان کے تناظر میں پشتون زعماء بھی بے سرو پا منطق پیش نہ کریں۔ نہ معروضی حقائق سے آنکھیں پھیریں۔ گویا ان کی افغانستان کو ایک آزاد، جمہوری روایات کا حامل باور کرا نے کی رٹ دراصل قوم و نوجوان نسل کو راہ سے ہٹانے کی ناروا سعی ہے۔ لہٰذا خود بھی مداخلت سے اجتناب کریں اور تلقین کابل کی حکومت کو بھی کی جائے کہ جن کی تمام حکومتی مشنری فی الواقع بھارت کے انتظام میں ہے۔ افغان عوام کسی افغان کی بے دخلی کے بجائے قابض خارجی افواج کے انخلا کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔
29 فروری 2020ء کے دوحا معاہدے میں امریکا تسلیم کرچکا ہے کہ وہ افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنے اور فوجی اڈے ختم کرنے کا پابند ہے۔ اور یقینا ملک کا استقلال تب قائم ہو گا، جب وہاں کا واک، اختیار اور اقتدار اعلیٰ وہاں کے عوام کے ہاتھ میں ہو۔ عجیب بات ہے کہ جب پرویز مشرف افغانستان پر حملے میں امریکا کا اتحادی بنا تو تب ان زعماء کی نگاہ میں وہ سب کچھ جائز تھا۔ گویا غیر ملکی تسلط کے حامی و موید زعماء اسی میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔ جو ماضی میں سویت یونین کے فوجی قبضے کے دوران ماسکو کے من و سلویٰ سے شکم بھرتے تھے۔ جیسے ذکر ہوا کہ پاکستان اور افغانستان ہی دراصل ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی نے نئی دہلی میں بھارتی صحافیوں کو جواب میں کہا تھا کہ بھارت یقینا افغانستان کا دوست ملک ہے لیکن پاکستان برادر ملک ہے۔ غرض حالیہ چمن سرحد واقعہ سبوتاژ اور تخریبی تھیوری کا حصہ ہے۔ چناں چہ پاکستان اپنے عوام کو کسی صورت متنفر نہ ہونے دے۔