ہمیں بھی یاد کر لینا

420

وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کی پریس کانفرنس بتاتی ہے کہ پاکستان میں کورونا کی وبا اب آخری مرحلے میں داخل ہوگئی ہے اور قوم کسی بھی وقت اس عفریت کے خوف اور خطرے سے آزاد ہو جائے گی۔ اسد عمر نے اعلان کیا کہ ملک بھر کے سیاحتی مقامات کو آج سے کھول دیا گیا ہے۔ سیاحتی مقامات پر ہوٹلوں کو کھولا جارہا ہے۔ ایس او پیز کے تحت عوامی مقامات، ریسٹورنٹس، کیفے، تھیٹر، سینما ہائوس، مزارات بزنس سینٹر، ایکسپو سینٹرز کو کھولا جارہا ہے۔ شادی ہال، بیوٹی پارلر اور تعلیمی ادارے بھی پندرہ ستمبر سے کھولے جا رہے ہیں۔ اسی طرح کاروباری مراکز کے کھلنے بند ہونے کے معمولات بھی اپنی پرانی سطح پر بحال ہونے جا رہے ہیں۔ اسد عمر کی یہ پریس کانفرنس اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک میں کورونا کی شبِ ستم کا اختتام اب سحر کی صورت میں ہونے جا رہا ہے۔
کچھ عرصہ قبل عوامی جمہوریہ چین نے بھی جنوبی ایشیا کے دو ملکوں کو پاکستان کی تقلید کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان ملکوں کو کورونا پر قابو پانے کی پاکستان کی کامیابیوں سے سیکھنا چاہیے۔ یہ بھی اس بات کا اشارہ تھا کہ پاکستان بطور ریاست اس وبا پر قابو پانے میں کامیاب ہوچکا ہے۔ پاکستان نے چین کے تجربے سے سیکھ کر وبا پر قابو پالیا اور چین نے کئی دوسرے ملکوں کو پاکستان کی تقلید کرکے اس بلا اور وبا سے خلاصی کا مشورہ دیا۔ ملک بھر سے آنے والی رپورٹیں بھی بتارہی ہیں کہ ملک میں کورونا کا خطرہ بتدریج کم ہو رہا ہے اور اس حوالے سے متوقع نقصان کے اندازے بھی غلط ثابت ہو رہے ہیں۔ خود وزیر اعظم عمران خان نے بہت پہلے ہی اپنے روایتی کھلے ڈلے انداز میں اموات کے حوالے سے اندازے غلط ثابت ہونے کا اعتراف کیا تھا۔ عید الفطر کی غلطیوں سے سیکھ کر عید الاضحیٰ منانا بھی وبا کے خطرے کو کم کرنے کا باعث بنا۔ یوں اب سرنگ کے دوسری طرف روشنی کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ لاک ڈائون سے آزادی، خوف وخطرات سے چھٹکارے کی اس منزل تک کا سفر ایک خواب سا لگتا ہے۔
مارچ کے مہینے میں یوں لگا کہ چین سے اُٹھنے والی طوفان کی لہریں پورے یورپ کو روند کرکرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لیں گی۔ یہ وہی وقت تھا جب کورونا چینی حدود پھلانگ کر یورپ کی طرف بڑھ رہا تھا اور اٹلی بری طرح اس کی لپیٹ میں آچکا تھا۔ آثار قدیمہ، بہترین سیاحتی مراکز اور خوبصورت مقامات کا حامل ایک مخصوص وضع قطع ’’اٹالین بیوٹی‘‘ کے لیے مشہور یہ ملک بھوت نگر بن رہا تھا اور سوشل میڈیا جھوٹی سچی ویڈیو کے ذریعے پبلک مقامات پر بکھری لاشوں اور کھانستے کراہتے ہجوم کوڑے کے ٹرکوں پر لدی لاشوں کے انبار دکھا کر خوف اور دہشت کو ایک نفسیاتی عارضے کی شکل دے رہا تھا۔ یہی وہ مقام اور مرحلہ تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انسان کو اپنے سائے سے بھی ڈر لگتا ہے۔ ایک طوفان اُمڈتا چلا آرہا تھا اور دنیا کو طوفانی لہروں کی شدت کا اندازہ ہی نہیں تھا اسی لیے وہ اس سے
بچائو کی بروقت تدبیر سے بھی قاصر تھے۔ برطانیہ ان ملکوں میں شامل تھا جہاں حکومت خطرے کی شدت اور نوعیت کا اندازہ لگا کر بروقت لاک ڈاؤن کا فیصلہ نہ کرسکی جس پر حکومت کو عوام اور میڈیا کی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان بھی برطانیہ کی طرح ان ملکوں میں شامل تھا جہاں حکومت خطرے کی نوعیت کو سمجھنے کے انتظار میں دن گزار رہی تھی۔ خوف وخطرے کی شدت نے آخر کار حکومت کو مکمل لاک ڈائون کے تلخ فیصلے پر مجبور کیا۔ دنیا کے دوسرے ملکوں کے برعکس پاکستان جیسی ڈولتی معیشت کے حامل ملک کے لیے اچانک بٹن دبا کر نظام زندگی کی چلتی گاڑی کا پہیہ جام کرنا آسان نہیں تھا۔ بے روزگاری، مہنگائی، دہشت گردی جھکی ہوئی کمرپر لاک ڈائون کا اضافی پتھر کمر توڑنے کے لیے کافی تھا۔ اس حکمت عملی میں یہ خطرہ موجود تھا کہ کچھ لوگ تو بیماری سے مرجائیں گے مگر ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہوگی جو بھوک کی نذر ہوجائے گی کیونکہ روز کی بنیاد پر کماکر گھر کا چولہا جلانے والے شخص کے لیے غیر معینہ مدت کے لیے گھر میں بیٹھ کر حالات سے لڑنے کی توقع زیادتی معلوم ہو رہی تھی۔ عام فرد کے لیے یہ تصور بھی سوہانِ روح تھا چہ جائیکہ کہ ایک دہاڑی دار شخص کو اس صورت حال کا عملی سامنا ہو۔
مقام شکر ہے کہ وبا کی تباہ کاریوں کا اندازہ غلط ثابت ہونے کے بعد بھوک سے مرجانے کا اندازہ بھی غلط ثابت ہوا۔ اس سے انسانوں کا ایمان پختہ ہوا کہ رزق اور موت وزندگی سمیت سب فیصلے رب کائنات کے ہیں۔ اس کا ایک اور پہلو ہماری سوسائٹی کی اس خوبی کا ایک بار پھر نمایاں ہونا کہ مشکلات، آفات اور حادثات میں سستی، کاہلی کہولت کی شاہکار سوسائٹی عزم وایثار کا قطب مینار بن کر دنیا کے لیے مثال قائم کرتی ہے۔ مخیر حضرات اپنی مٹھی ڈھیلی کرتے ہیں روپے پیسے کو سینت سینت کر رکھنے والے اپنی تجوریوں کے دہانے کھول دیتے ہیں۔ حالیہ لاک ڈائون میں بھی معاشرے نے مجموعی طور پر اپنی اس خوبی اور صفت کا اعادہ کرکے دنیا کو حیران کر دیا۔ یہ موسمی اور وقتی کردار اگر ہر فرد اور معاشرے کی فطرت ثانیہ بن جائے تو اس قوم وملک میں دنیا میں نمایاں اور ممتاز بن کر اُبھرنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ یہ جو سحر طلوع ہورہی ہے اس میں ہمارے ستاروں کی انجمن کا لہو بھی شامل ہے۔ خود مذمتی اور خود ملامتی اپنی جگہ مگر جہاں لاک ڈائون میں سخاوت ایثار اور قربانی کی مثالیں قائم ہوئیں وہیں بہادری اور جرأت کو بھی ہمارے لوگوں نے نئے مفاہیم عطا کیے۔ بالخصوص شعبہ طب سے وابستہ لوگوں نے جانوں کی پروا کیے بغیر مجاہدانہ جوش وجذبے سے اس بلا کا مقابلہ کیا اور بہت سے عالی دماغ اس معرکے میں جانوں سے گزر گئے۔ ان میں انتظامیہ فوجی جوان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لوگ بھی شامل تھے۔ جنہوں نے پلاسٹک نما لباس کو ذرہ وبکتر بند بنا کر لڑائی کی اور خاموشی سے زخم کھا کرکسمپرسی کے عالم میں مٹی کی ردا اوڑھ لی۔ جاتے ہوئے ’’ہمیں بھی یاد کرلینا چمن میں جب بہار آئے‘‘ کی فرمائش تک نہیں کی۔ اب جبکہ بہار کے آثار نمایاں ہیں تو حکومت کو ان مجاہدوں کو محسنوں کی شان اور وقار کے ساتھ یاد کرنا چاہیے۔