لبنان کا دارالحکومت بیروت جسے ایشیا کا پیرس کہا جاتا تھا۔ لبنان مشرق وسطیٰ کا ایک اہم ملک جو بحیرہ روم کے مشرقی کنارے پر آباد ہے۔ اس کے شمال اور مشرق میں شام، جنوب میں اسرائیل اور مغرب میں بحیرہ روم واقع ہے۔ یہ ایک مسلم اکثریتی ملک ہے۔ لیکن عیسائی یہاں اقتدار اور معیشت پر قابض ہیں۔ لبنان نے 1943ء میں فرانس سے آزادی حاصل کی۔ مسلمانوں کی آبادی 1932ء کے اعداد و شمار کے مطابق ستاون فی صد، عیسائی چالیس فی صد اور دروز تین فی صد تھے۔ 1943ء میں جب لبنان نے آزادی حاصل کی تو فرانس نے اقتدار عیسائیوں کو سونپا اور اُس کے لیے عیسائیوں کو تو چالیس فی صد شمار کیا لیکن مسلمانوں کی آبادی کو ستاون فی صد کے بجائے شیعہ اور سنی میں یوں بانٹا کہ شیعہ تیس فی صد اور سنی مسلمان ستائیس فی صد ٹھیرائے گئے۔
یہ 1932ء کے اعداد و شمار تھے جن کے مطابق عیسائی اکثریت میں قرار دے کر صدر کا عہدہ عیسائیوں کے لیے مختص کردیا گیا۔ فرانس نے ناانصافی پر مبنی نظام حکومت قائم کرکے لبنان کو آزاد کیا۔ لہٰذا خانہ جنگی تو ہونی تھی۔ 1975ء میں لبنان میں خانہ جنگی پھوٹ پڑی۔ یہ پندرہ سال جاری رہی۔ اس دوران موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل نے جنوبی لبنان پر قبضہ کرلیا۔ 2000ء میں گوریلا حملوں کے باعث اسرائیل کو یہ قبضہ چھوڑنا پڑا مگر اب بھی وہ مزارع شعبہ (شعبہ فارم) پر قابض ہے اور جب موقع ملتا ہے لبنان میں اپنے ہتھیار استعمال کرتا رہتا ہے۔ گزشتہ روز لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ایک بڑا دھماکا ہوا جس میں آدھے سے زیادہ شہر تباہ ہوگیا۔ یہ دھماکا اتنا شدید تھا کہ اس کی آواز ڈھائی سو کلو میٹر دور تک سنی گئی۔ دھماکے کا سبب کیمیائی مادہ ’’ایمونیم نائٹریٹ‘‘ بتایا گیا جس کی مقدار ستائیس سو ٹن سے زیادہ تھی اور جس کو بیروت کی بندرگاہ کے ایک گودام میں غیر محفوظ انداز میں رکھا گیا تھا۔ اس سلسلے میں لبنان کی حکومت نے تفتیش کا حکم دیا ہے کہ بیروت بندر گاہ کے ویئر ہائوس میں دو ہزار سات سو ٹن دھماکا خیز کیمیائی مواد سے بھرا ہوا جہاز بغیر کسی احتیاطی تدابیر کے کیسے موجود تھا؟ حکومت نے بندرگاہ کے حکام کو جو اس دھماکا خیز مواد کو وہاں رکھنے یا پھر نگرانی کرنے کے ذمے دار ہیں انہیں گھروں میں نظر بند رکھنے کا حکم دیا ہے۔
ماہرین کے مطابق بیروت دھماکے کی شدت اس جوہری بم کا دسواں حصہ تھی جو دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان کے شہر ہیروشیما میں گرایا گیا تھا۔ حقیقت میں یہ تاریخ کا سب سے شدید غیر جوہری دھماکا تھا۔ دھماکے کی جگہ پر 124 میٹر (405 فٹ) گہرا گڑھا ہوگیا ہے۔ یہ بات انتہائی اہم ہے کہ بیروت میں اس خوفناک دھماکے سے چند گھنٹے قبل اسرائیلی وزیراعظم کے سرکاری ٹوئٹر اکائونٹ سے ایک دھمکی آمیز ٹویٹ جاری کی گئی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’ہم نے ایک سیل کو ہدف بنایا تھا اور اب ہم نے اس سیل کو بنانے والے کو نشانہ بنایا ہے۔ ہم اپنے تحفظ کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کریں گے۔ میں حزب اللہ سمیت سب کو مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ اس پر غور کریں۔ ان الفاظ کو بے کار مت سمجھیں ان الفاظ کے پیچھے اسرائیلی ریاست اور اسرائیلی دفاعی فورسز کا پورا وزن ہے انہیں پوری طرح سنجیدگی سے لیں۔
اسرائیلی وزیراعظم کا یہ دھمکی آمیز ٹویٹ انتہائی معنی خیز ہے۔ خاص طور سے اس صورت حال میں جب کہ جولائی کے آخری دنوں میں اسرائیلی فوج کے مطابق کہا گیا کہ تین اگست 2020ء کو حزب اللہ کے کچھ مسلح کارکن گولان کی پہاڑیوں سے سیز فائر لائن عبور کرنے کی کوشش کررہے تھے اور اُن کو روکنے کے لیے اسرائیلی فوج نے فائر کھول دیا ہے۔ یہ جھڑپیں شام سے متصل شعبہ فارم کے لبنانی علاقے ’’کفرشوبا‘‘ میں پیش آئیں۔ عینی شاہدوں نے بتایا کہ اسرائیلی فوج کے آرٹلری حملوں کے بعد علاقے سے دھوئیں کے بادل اُٹھتے دیکھے گئے۔ لیکن ان حملوں میں کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔ اس کے بعد لبنان کے وزیراعظم نے کہا کہ اسرائیل نے لبنان کی سرحد پر خطرناک فوجی کارروائیاں کرکے لبنان کی خود مختاری کو پامال کیا ہے۔ فوراً ہی اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے پھر خبردار کیا کہ حزب اللہ کو احساس ہونا چاہیے کہ وہ آگ سے کھیل رہے ہیں اور اگر وہ اپنی کارروائیوں سے باز نہ آئے تو نتائج کی ذمے داری لبنان اور حزب اللہ پر ہوگی۔ ان بیان بازیوں کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نے دھمکی آمیز ٹویٹ کیا اور اُس کے چند گھنٹوں بعد ہی بیروت میں یہ خطرناک دھماکا ہوگیا۔ یہ ساری صورت حال خطے کے لیے انتہائی خوفناک ہے۔ سات اگست کو دھماکے کے بعد جرمنی کی داخلی انٹیلی جنس ایجنسی (BFV) نے تصدیق کی ہے کہ انہیں جرمنی میں بڑی مقدار میں ایسے کیمیائی مادوں کے بڑے ذخیرے کی اطلاع ملی تھی جن میں ایمونیم نائٹریٹ شامل تھا۔ بعد میں یہ کیمیکل جرمنی سے باہر پہنچا دیے گئے تھے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اب تک کوئی ایسا ثبوت نہیں ملا ہے کہ جرمنی سے بیرون ملک بھیجے گئے ان دھماکا خیز کیمیائی مادوں کا بیروت کی بندرگاہ میں ذخیرہ کیے گئے خطرناک مادوں سے کوئی تعلق تھا۔ ان کیمیائی مادوں سے متعلق ایک رپورٹ اسرائیلی میڈیا میں بھی نشر کی گئی تھی۔ جس میں بتایا گیا تھا کہ ان کیمیائی مادوں کی اطلاع جرمن انٹیلی جنس کو اسرائیلی سیکرٹ سروس موساد نے دی تھی۔
بہرحال یہ سوال اہم ہے کہ جرمنی سے خطرناک کیمیائی مواد کہاں پہنچایا گیا؟ اور اسرائیلی سیکرٹ سروس اس مواد کی جرمنی میں موجودگی سے واقف تھی تو اس بات سے بھی ضرور واقف ہوگی کہ پھر بعد میں اس کیمیائی مواد کو کہاں پہنچایا گیا؟ لہٰذا اسرائیل نے علاقے کے سارے ہی ممالک کو ٹویٹ کے ذریعے دھمکانے کے بعد ہوسکتا ہے کہ کیمیائی مواد کو استعمال کر ہی لینے کا فیصلہ کیا گیا ہو؟ بغیر اس بات کو سوچے کہ معصوم لبنانی عوام کی زندگیوں کا کیا ہوگا؟۔