آخری ملاقات

341

گزشتہ دنوں اپنی کتاب ’’کھلے دریچے‘‘ پیش کرنے کے لیے محترم اطہر ہاشمی سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو نظروں میں ان کی وہی باغ و بہار شخصیت سامنے آگئی وہ مسکراتا چہرہ، خوش مزاج، مزاح و حاضر جواب و زبان و بیان کے ماہر، بااخلاق منکسرالمزاج، نظریاتی صحافت کے ایک درخشندہ ستارے تھے۔ کسے معلوم تھا کہ میری ان سے یہ آخری ملاقات ثابت ہوگی۔ ان کے کیبن میں داخل ہوا سلام کیا تو طرز تکلم میں وہی منظر سامنے آگیا جب شہید صلاح الدین، کشش صدیقی و سید فیض الرحمن (اللہ تعالیٰ مرحومین کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کی مغفرت فرمائے، آمین) کے دور میں ان سے مضامین و پریس ریلیز کی اشاعت کے سلسلے میں ملاقاتیں ہوتی تھیں وہ اس دور میں ایک منفرد مزاج رکھتے تھے، حاضر جوابی میں بے مثال تھے، گفتگو میں اخبار جسارت کی پالیسی سے اختلاف رکھنے والے بھی ان کے اخلاق و کردار سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے تھے۔ میرے ایک مضمون کی اشاعت میں میرا نام غلط شائع ہوگیا تصحیح کے مطالبہ پر مسکراتے ہوئے کہا میاں فکر نہ کریں سسرال والے سمجھ جائیں گے کہ آپ ہی کا مضمون ہے۔ اس اپنائیت کے ساتھ تصحیح کا مطالبہ مسترد کیا تو میں اپنے مطالبہ کو بھول کر ان کے اخلاق کا گرویدہ ہوگیا۔ ایک اور واقعہ میں جب جسارت کے ادارتی صفحہ پر سرسید احمد خان سے متعلق مضامین شائع ہوئے تو میں نے بعض نکات اختلاف کرتے ہوئے مضمون لکھا عدم اشاعت پر ان سے گفتگو کی مجھے احساس تھا کہ وہ ایک نظریاتی اخبار کے ذمے دار کی حیثیت سے اخبار کی پالیسی کو ترجیح دیں گے لیکن معمولی بحث و مباحثہ کے بعد وہ مضمون ’’سرسید احمد خان سے متعلق ایک متضاد رائے‘‘ کے عنوان سے شائع ہوگیا۔ وہ اختلاف رائے کا احترام کرتے تھے، نظریاتی پالیسی کے باوجود اختلافی آرا کو بھی نظر انداز نہیں کرتے تھے، مثبت صحافت پر یقین رکھتے تھے، صحافتی میدان میں ان کے اخلاق و کردار سے ہر شخص پہلی ملاقات میں متاثر ہوجاتا، وہ اپنے اسٹاف میں بھی ہر دلعزیز شخصیت اور نرم خو استاد و رہنما کا درجہ رکھتے تھے، ہر چھوٹے بڑے سے گھل مل جاتے، کسی کو محسوس نہیں ہوتا تھا کہ وہ ان کے چیف ہیں، ہر ایک ساتھی کی اصلاح زبان و بیان میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے، اس سلسلے میں ان کا مستقل کالم ’’بین السطور‘‘ اور ’’خبر لیجیے زباں بگڑی‘‘ فرائیڈے اسپیشل میں شائع ہوتا تھا جو اہل زباں و صحافتی حلقوں میں مشہور و معروف تھا۔ یہ کالم ان کی اردو زبان سے انسیت و محبت کا عملی ثبوت تھا۔ اس سلسلے میں حالیہ ایک ملاقات کے دوران میں نے ایک پریس ریلیز انہیں اشاعت کی عرض سے دی تو انہوں نے پڑھنے کے ساتھ کہا کہ زبان کی معمولی غلطی ہے اجازت ہو تو اصلاح کردوں۔ میں شرمندہ ہوا کہ ایک جید صحافی و اردو داں مجھ سے جو ایک طالب علم ہے اصلاح کی اجازت لے رہا ہے۔ یہ ان کے اخلاق و سیرت کی بلندی تھی کہ وہ ہر چھوٹے بڑے کی اخلاقی حدود کا خیال رکھتے تھے۔ اسلام آباد کے ایک سینئر صحافی جناب شہاب عزیز نے جسارت میگزین 15-9 اگست 2020ء میں ان کی صحافتی خدمات کے بارے میں بالکل صحیح تحریر کیا ہے کہ ’’صحافت کا ایک عظیم باب ختم ہوا، مولانا محمد علی جوہر، ظفر علی خان اور شورش کاشمیری کے قبیلے کا آخری فرد چل بسا، ہاشمی صاحب بلامبالغہ ہزاروں صحافیوں کے استاد ہیں۔ جرأت و بے باکی اور سلیقے کے ساتھ ابلاغ میں ان کا ثانی اردو صحافت میں ملنا مشکل ہے‘‘۔ آج ان کے انتقال سے صحافتی دنیا ویران ہوگئی ہے، باغ و بہار شخصیت کی جدائی سے صحافت خصوصاً جسارت کی فضا سوگوار ہے جو خلا پیدا ہوگیا ہے وہ پُر ہونا مشکل ہے، ان کا صحافتی اسلوب و کردار صحافت کے میدان میں مشعل راہ رہے گا۔ آئندہ اس میدان میں قدم رکھنے والی نئی نسل کے لیے مینارہ نور ہوگا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ صحافت کے اس درخشندہ ستارے کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے اور صحافت کے ذریعے دین اسلام کی خدمت کو قبول فرمائے اور ان کی مغفرت کرے۔ لواحقین کو صبر جمیل اور ان کے کردار و سیرت پر عمل کرنے کی توفیق دے (آمین)
آسماں لحد پہ تیری شبنم آفشانی کرے