بے سمت

304

یہ کیسے دکھ کی بات ہے کہ قیام پاکستان کے لیے سب کچھ قربان کرنے والے بھی کہہ رہے ہیں کہ انگریزوں کا دور حکومت اچھا تھا وہ کلمہ گو تو نہ تھے مگر کلمہ گو کافر بھی نہ تھے۔ تھانے اور عدالتیں قانون کے مطابق کام کرتی تھی۔ عام آدمی کی عزت نفس کا بھی خیال رکھا جاتا تھا عدالتیں پیشی در پیشی کا دل آزارکھیل کھیلنے کے بجائے مقدمات کی سماعت کیا کرتی تھیں۔ وکلا کو اپنے پیشے کا وقار بہت عزیز تھا۔ جج صاحبان بھی اپنے منصب سے بہت پیار کرتے تھے اور ہر مقدمے میں عزت نفس برقرار رکھتے تھے۔ اور اب یہ حال ہے کہ ہر ادارہ بے ارادہ اور بے سمت چل رہا ہے۔ ایک سائل کو اگلی پیشی دی گئی تو اس نے جج صاحب سے کہا جناب والا آپ مسلسل کئی سال سے پیشی پر پیشی دے رہے ہیں آپ ایک ہی بار لمبی پیشی دے کر پیشی در پیشی کے جاں گسل مرحلے سے میری جان چھوڑ دیں۔ سمجھ میں نہیں آتا پیشیاں بھگتوں یا بال بچے پالوں۔ مجھ پر الزام ہے کہ میں نے موبائل فون چوری کیا ہے حالانکہ میں نے آج تک کسی بھی موبائل کو ہاتھ بھی نہیں لگایا ہے۔ میں چولستان کا رہنے والا ہوں وہاں پر موبائل کی وبا اتنی عام نہیں ہے۔ جج صاحب کا پارہ ہائی ہوگیا اور بلڈ پریشر بھی ہائی ہوگیا اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا سر چکرانے لگا نائب قاصد سے پانی طلب کیا سینے میں ٹھنڈ پڑی تو کہنے لگے کہ تم مجھے ڈکٹیشن دے رے ہو تم مجھے بتائو گے کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔ سائل نے کہا جناب والا جانتا ہوں آپ مجھے جیل بھیج سکتے ہیں مگر میں دست بستہ گزارش کروںگا کہ مجھے قبرستان بھیج دیں تاکہ ہفتے دو ہفتے کے بعد آپ کے دربار میں حاضری دینے سے نجات مل جائے۔ یہ سن کر جج صاحب یوں اچھلے جیسے کرسی کے کانٹے اگائے ہوں۔ معاملہ کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ایک بزرگ وکیل نے معاملہ رفع دفع کرایا یوں عدلیہ کی تاریخ میں توہین عدالت کے ایک مقدمے کا اضافہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ ورنہ جج صاحب تو خدا کی نیابت کا اظہار کرنے کی مکمل تیاری کرچکے تھے۔
عدل بہت حساس معاملہ ہے اور بہت سوچ بچار کے بعد اسے قانونی شکل دی جاتی ہے ظاہر ہے قانونی سازی کرنے والے بہت اہم ہوتے ہوں گے ان کی عقل ودانش بھی قابل فخر ہوتی ہوگی وہ کوئی ایسا قانون نافذ نہیں کرسکتے نہ تشکیل دے سکتے ہیں جو عوام کے بنیادی حقوق کو مجروح کرنے کا سبب بنے۔ مگر جب ہم اپنے نظام عدل پر غور کرتے ہیں تو ہمیں اندھیر نگری کی حکایت یاد آجاتی ہے۔ جہاں پر سزائیں جرم کرنے پر نہیں جرم کا دفاع کرنے پر دی جاتی تھیں۔ عدالتوں میں ہزاروں ایسے مقدمات زیر سماعت ہے جن کے اندارج اور سماعت کا جواز ہی نہیں ہے۔ مگر وہ جج اور جسٹس صاحبان کی میز کی اس لیے زینت بنائے جاتے ہیں تاکہ یہ ثابت کیا جاسکے کہ ہماری عدالتیں بڑی فعال اور متحرک ہیں۔ جسٹس اور جج صاحبان سماعت نہیں کرتے پیشیاں لگاتے ہیں اور یہ کام بھی ان کے ریڈر صاحبان کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ عدلیہ جونک کیوں بنتی جارہی ہے۔ مگر کوئی بھی یہ سوچنے پر آمادہ نہیں کہ قوم کے جسم میں خون کب تک رہے گا۔ آج تک کسی بھی سابق چیف جسٹس آف پاکستان نے نظام عدل کی تعریف نہیں کی سب ہی اس بات پر مقفق ہیں کہ ہمارا نظام عدل عوام کو انصاف فراہم میں ناکام رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ نظام عدل انصاف فراہم کرنے کا اہل نہیں تو عدالتوں کا کیا جواز ہے جج اور جسٹس صاحبان پر قومی خزانہ برباد کرنے کی کیا تک ہے۔ مگر المیہ یہی ہے کہ ہمارے ہاں شاعری سے زیادہ تک بندی کو پسند کیا جاتا ہے جو جتنا بڑا تک بند ہوتا ہے اتنا ہی مقبول ہوتا ہے ہر طرف اسی کی واہ واہ ہوتی ہے۔