قاضی شہر سے بھی کوئی پوچھے ذرا

340

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں از خود نوٹس کی سماعت میں چیف جسٹس نے کراچی بھر میں لگے تمام سائن بورڈز فوری ہٹانے کا حکم دیدیا اور تمام سائن بورڈز ہٹا کر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔ اسی سماعت کے دوران معزز منصف اعلیٰ نے میئر کراچی وسیم اختر سے سوال کیا کہ آپ کب جائیں گے؟ میئر کراچی کے اس جواب پر کہ 28 اگست 2020 کو ان کی مدت ختم ہوگی جسٹس گلزار صاحب کے ریمارکس تھے کہ شہر کی جان چھوڑو جائو کراچی کے میئرز نے شہر کو تباہ کردیا ہے۔ اسی سماعت کے دوران منصف اعلیٰ کا یہ بھی کہنا تھا کہ کراچی کو بنانے والا کوئی نہیں ہے لوگ صرف اپنی جیبیں بھر کر چلے جاتے ہیں، شہر کے لیے کوئی کچھ نہیں کرتا، کے الیکٹرک والے بھی یہاں مزے کر رہے ہیں، وہ بھی باہر کا قرضہ کراچی سے نکال رہے ہیں ان کا مشورہ تھا کہ’’کے الیکٹرک‘‘ کے سی ای او کے خلاف مقدمہ درج ہونا چاہیے اور پوری انتظامیہ کا نام ای سی ایل میں ڈالنا چاہیے انہوں نے سماعت کے آغاز میں کے الیکٹرک کے سی ای او کی عدالت میں فوری طلبی کا حکم دیا اور یہ عندیہ بھی کہ اس ضمن میں وہ اپنا حکم نامہ جاری کریں گے۔ کم از کم ہمارے علم میں یہ بات نہیں کہ سماعت کے آغاز کے حکم نامے یعنی کے الیکٹرک کے سی ای او کی عدالت میں طلبی پر کتنا عملدر امد ہوا؟ اور ان کے دوسرے حکم نامے پر انتظامیہ کتنا ایکشن لے گی؟ رہے ان کے یہ ریمارکس کہ ’’کراچی کے میئرز نے شہر تباہ کیا‘‘ عدلیہ اور خود ان کے احترام میں ہم منصف اعلیٰ کی اس بات کو ان کی لاعلمی کہنے سے گریز کریں گے کیونکہ ساکنان کراچی اس شہر کے میئر عبد الستار افغانی اور محترم نعمت اللہ خان اور اس کے بعد ان کے فالور مصطفی کمال کی کراچی کے لیے خدمات سے ناواقف نہیں ہیں رہی موجودہ میئر کراچی شہر کی جان چھوڑنے کی بات تو مودبانہ عرض یہ ہے کہ ان سمیت اپنے اپنے عہدوں سے جان تو سب ہی کو چھورنی ہے تاہم ہر جاتے کے پیچھے یہ ضرور دیکھا جاتا ہے کہ اس نے کام کیا کیا ہے؟ مسلمہ بات تو یہی ہے کہ کام اچھا ہو تو نام زندہ رہتے ہیں اور اس کو پزیرائی بھی ملا کرتی ہے معزز منصف اعلیٰ کو بھی اپنے عہدے سے فارغ ہونا ہے تو انہیں چاہیے کہ ان کے فیصلے نہیں ان پر عملدرامد زندہ و تابندہ رہے۔ آئین پاکستان ان کو اپنے فیصلوں کے نفاذ کے مکمل اختیارات دیتا ہے۔ کے الیکٹرک کے سی ای او پر مقدمہ قائم کرنے اور اس کے تمام کارندوں کا نام ای سی ایل میں ڈالے جانے کا حکم نامہ محض ایک ہدایت نہ ہو اس کا نفاذ ہوتا نظر آنا چاہیے کیونکہ پاکستان کے مظلوم عوام اس سے قبل کے عدلیہ کے سخت ریمارکس ابھی بھولے نہیں ہیں سسلین مافیا اور گاڈ فادر جیسے الفاظ بھی انہیں معزز جج صاحبان کے تھے اور پھر ہوا یوں کہ اسی مافیا نے اپنے گاڈ فادر کو جرم ثابت ہونے کے بعد بھی مفرور کرایا انتظامیہ اور عدلیہ دونوں بس تکتے رہ گئے یہ اپنی نوعیت کا ایک واقعہ نہیں بے شمار ای سی ایل میں نام ہونے کے باوجود ملک سے فرار ہو کر اپنے آقائوں کی گود میں جا بیٹھے ہیں۔
ہم احتراماً منصف اعلیٰ کے اس حکم سے بھی اختلاف نہیں کر سکتے کہ کراچی بھر میں لگے سائن بورڈ فوری ہٹائے جائیں اور دس دنوں میں ان کی رپورٹ پیش کی جائے ہم سمجھتے ہیں کہ انہیں اس کے بجائے انتظامیہ سے یہ سوال کرنا چاہیے تھا کہ 2018 کے وسط اور آخر میں تین الگ الگ سماعتوں میں ان کے پیش رو ثاقب نثار کے ملک بھر میں تمام بل بورڈز اور ہورڈنگ ہٹائے جانے کے حکم نامے پر عملدرامد کیوں نہیں ہوا؟ عدالتی فیصلے کی بے توقیری کیوں کی گئی؟ واضح رہے جون 2018 میں عدالت عظمیٰ نے کراچی کی اہم سڑکوں پر لگی اشتہاری دیواریں گرا کر دس دنوں میں رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا تھا اور آئندہ اشتہاری مقاصد کے لیے دیواریں قائم کرنے پر پابندی عائد کی تھی اسی طرح ستمبر 2018 میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں بل بورڈز سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران افواج پاکستان کے بارے میں ریمارکس دیتے ہوئے استفسار کیا تھا کہ کیا دنیا میں کسی ملک کی فوج پیسہ کمانے کے لیے کاروبار کرتی ہے؟ کیونکہ سماعت کے دوران عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ لاہور میں بل بورڈز نیشنل لاجسٹک سیل ’نیشنل ہائی وے اتھارٹی اور ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی نے لگا رکھے ہیں، دسمبر 2018 میں ہمارے انہیں محترم چیف جسٹس نے پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں بل بورڈ ہٹانے کیخلاف نظر ثانی اپیل خارج کرتے ہوئے 3 ماہ میں بل بورڈ ہٹانے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ بل بورڈ ہٹائے جانے سے متعلق میرا کراچی والا حکم ملک بھر پر لاگو ہوگا۔
معزز منصف اعلیٰ نے کے الیکٹرک کے بارے میں جو کچھ بھی کہا وہ اس سے قبل بھی کہا گیا جس کے بارے میں جولائی 2019 میں امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے اپنے ایک بیان میں عدلیہ کے ریمارکس کو جماعت اسلامی کے بیان کی تائید قرار دیتے ہوئے کہا ’’کے الیکٹرک کو صرف اپنے منافع کی فکر ہے اور عدالت عظمیٰ نے بھی کہا ہے کہ یہ کمپنی پاکستانی نہیں اسے صرف اپنے منافع سے غرض ہے اور اس کا سب سے بڑا اور واضح ثبوت یہ ہے کہ کے الیکٹرک نے اپنے معاہدہ نجکاری پر بالکل عمل نہیں کیا۔ بجلی کے ترسیلی نظام کو بہتر نہیں کیا۔ معاہدے کے تحت نہ پیداواری صلاحیت اور پاور پلانٹ میں اضافہ کیا اور نہ ہی موجودہ تمام پاور پلانٹس کو مکمل استعداد پر چلا کر بجلی کی قلت کو دور کیا مسلسل لوڈشیڈنگ اوور بلنگ بھی بہت بڑا مسئلہ ہے ذرا سی گرمی اور معمولی سی بارش سے کے الیکٹرک کا پورا نظام بیٹھ جاتا ہے کرنٹ لگنے کے واقعات سے قیمتی جانوں کا نقصان اس پر المیہ ہے۔ ’’عوام سوالی ہیں کہ ان کے بس میں سوال کرنا یا توجہ دلانا ہی ہے جوابدہ تو وہ ہیں جو ریمارکس دیتے ہیں فیصلے کرتے ہیں اور جن کے پاس اپنے فیصلے پر عمل درامد کرانے کا کلی اختیار بھی ہے چلتے چلتے حالیہ بارشوں میں پسماندہ صوبہ بلوچستان میں بارش کی تباہ کاریوں میں سڑکوں کا بہہ جانا اور پلوں کا ٹوٹ جانا ثاقب نثار کے اس ریمارکس پر ایک سوالیہ نشان ضرور چھوڑتا ہے کہ کیا دنیا میں کسی ملک کی فوج پیسہ کمانے کے لیے کاروبار کرتی ہے؟
موجودہ منصف اعلیٰ کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے پیش رو کے اس سوال کا جواب ضرور دیں کیونکہ سی پیک کے تحت تمام ہائی ویز کا ٹھیکہ ایف ڈبلیو او کے پاس ہے ہم تو صرف اتنا ہی عرض کر سکتے ہیں
قاضی شہر سے بھی کوئی پوچھ لے ذرا
ہوتے نہیں کیوں ان کی سزاوں کے تذکرے