پیر الٰہی بخش، جامعہ ملیہ اسکول میں ایک تقریری مقابلے کے مہمان ِخصوصی تھے۔ ان سے میں نے انعام وصول کرتے وقت معلوم کیا کہ ’’جب آپ کو سندھ اسمبلی میں قرارداد ِ پاکستان منظور کرانے کے لیے مطلوبہ ارکان کی تعداد میسر تھی تو آپ نے غلام مرتضیٰ سید المعروف ’’جی ایم سید‘‘ کی مدد سے قرار داد منظور کیوں کرائی۔ اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ ’’اس قرار داد کی منظوری کے لیے ہمیں نہ صرف مسلمان بلکہ چند ہندو ارکان ِ اسمبلی کی حمایت حاصل تھی لیکن خدشہ یہ تھا کہ کوئی مسلمان رکن قرار داد کی مخالفت میں ووٹ نہ دیدے۔ اس لیے اسمبلی ہال میں داخل ہونے سے قبل جی ایم سید نے معلوم کیا کہ قرار داد کون پیش کر ے گا تو میں نے قرار داد کا مسودہ جی ایم سید کے حوالے کر دیا اور کہا کہ سائیں آپ پیش کریں گے۔ 3 مارچ 1943ء کو قرارداد منظور ہوئی اور یہ واحد اسمبلی تھی جس نے 1940ء کی قرار داد کے بعد ایک قانونی قرار داد منظور کر کے دوسری اسمبلیوں کے لیے راستہ ہموار کیا۔ مسودہ کچھ اس طرح تھا۔
’’یہ ایوان، سرکار کو سفارش کرتا ہے، کہ قابل احترام وائسرائے ہند کے توسط سے بڑی سرکار (تاج برطانیہ) تک اس صوبے کے مسلمانوں کے جذبات اور اس خواہش کو پہنچایا جائے کہ: جیسا کہ مسلمانان ہند، اپنے مذہب، فلسفے، سماجی رسوم، ادب، روایات اور اپنے خالص سیاسی اور اقتصادی نظریات کے لحاظ سے، ایک الگ قوم ہیں، جن کے یہ تمام اوصاف، ہندوؤں کے خصائل سے یکسر مختلف ہیں، جس کی بنیاد پر یہ (مسلمانان ہند) ایک جداگانہ، علیحدہ قوم کی حیثیت میں، ایک آزاد ریاست حاصل کرنے کا حق رکھتے ہیں، جو ریاست، ہندوستان اور برصغیر کے ان علاقوں پر مشتمل ہو، جہاں مسلمانوں کی آبادی کی اکثریت بستی ہے۔ اس لیے، یہ (اس خطے کے مسلمان) پرزور انداز میں اعلان کرتے ہیں، کہ ایسا کوئی بھی آئین ان کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا، جو مسلمانوں کو کسی ایسی مرکزی حکومت کے زیر دست رکھے، جو (حکومت) کسی دوسری قوم کے زیر اثر ہو۔ اس لیے آنے والے واقعات کی ترتیب میں ان (مسلمانوں) کے لیے اپنی الگ آزاد ریاستوں کا ہونا ضروری ہے، جہاں وہ اپنے منفرد طور طریقوں کے ساتھ زندگی گزار کر، اپنا آزادانہ کردار ادا کر سکیں اور اسی لیے مسلمانان ہندوستان کو کسی بھی مرکزی حکومت کے زیرتسلط رکھنے کی کسی بھی کوشش کا نتیجہ، سخت سنگین، ناگوار نتائج پر مشتمل اور خانہ جنگی کی صورت میں نکلے گا۔ لیکن سوال آج بھی یہی ہے کہ کیا پاکستان 1940ء اور 3 مارچ 1943ء کی قرار داد سے آزاد ہوا تھا۔ 1940ء کی قرار داد کے بعد جِدو جُہد کو ایک راستہ مل گیا کہ اب پاکستان ہی منزل ہے لیکن یہ راستہ حقیقت میں ایک ایسا راستہ تھا جس نے قانون، انصاف، ہندوستان میں صدیوں سے رواج پانے والے ہندو مسلم بھائی بھائی رواداری کے کلچر کو راتوں رات تحلیل کر کے رکھ دیا اور یہ سب کچھ آ ج بھی جاری ہے اور اس کا انکار ’’کبوتر کو دیکھ کر بلی کی طرح آنکھ بند کرنے کی مثال جیسا ہے‘‘۔ 14اگست 1947ء حقارت، نفرت اور دکھوں، آنسوؤں قتل و غارت گری اور خواتین کو سرِ بازار بے آبرو کرنے کی داستانوں سے بھی بھری پڑی ہے۔
پاکستان کے مشرقی حصے میں اس قدر شدید ہنگاموں کا سامنا مسلمانوں کو نہیں تھا لیکن مغربی حصے کے لیے ہجرت کرنے والوں کو فسادات کا سامنا تھا۔ ایک مرتبہ ایک بزرگ ’’بابا دین محمد‘‘ سے مریدکے میں ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ یہاں کے رہنے والوں کا کہنا تھا کہ بابا بہت کم بولتے ہیں اور جب بولتے ہیں تو ’’یہی کہتے ہیں تم کو نہیں معلوم کیا کیا بیتی‘‘ میں ان کے قریب گیا اور میں نے معلوم کیا کہ اب تو بولو بابا کیا بیتی؟ بابا کافی دیر آنسوؤں سے روتے رہے اور میں نا امید سا ہو گیا کہ کچھ سننے کو نہیں ملے گا کہ بابا نے آنسوئوں کو رومال سے پونچھتے ہوئے کہا کہ پاکستان 14اگست 1947ء کو آزاد ہوا لیکن پنجاب میں ’’قربانی‘‘ کا سلسلہ یکم اگست ہی سے شروع ہوگیا تھا۔
پورے ہندوستان کی طرح پنجاب میں فیروز پور، حسن پور بھی تقسیم ِ ہند کے وقت فسادات کی لپیٹ میں آگئے۔ فسادات کی آگ نے حسن پور کو بھی بْری طرح متاثر کیا۔ صدیوں سے رواج پانے والا رواداری کا کلچر راتوں رات تحلیل ہوگیا۔ ہندو اور مسلمان جو ایک دوسرے کے پڑوس میں صدیوں سے پْرامن زندگی گزار رہے تھے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے۔ پنجاب میں فسادات نے گڑ گاؤں، امرتسر، انبالہ، گورداس پور اور اطراف کے علاقوں کو آگ کی طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ میرا تعلق حسن پور گاؤں سے ہے اور خاندان کے کچھ افراد رہا ئش پزیر تھے فیروز پور میں فسادات 5 اگست 47ء سے شروع ہوگئے تھے۔ اگست کا مہینہ حسن پور گاؤں کے خدشات کے باجود پْرسکون رہا لیکن ستمبر کے مہینے کے آغاز کے ساتھ ہی فسادات نے حسن پور گاؤں میں پنجے گاڑنا شروع کر دیے۔ سیکڑوں جنونیوں نے حسن پور گاؤں کو گھیرلیا۔ تقسیم ِ ہند کے بعد بھارت ایک الگ ملک کے طور پر قائم ہوا تو سردار ولبھ بھائی پٹیل اس کے وزیر داخلہ مقرر ہوئے۔ سردار پٹیل نے پولیس کے محکمے میں ایسے پولیس افسروں کو تعینات کردیا جو متعصب اور مسلمان دشمنی میں رنگے ہوئے تھے۔ فسادات میں بچ جانے والوں میں سے
بعض نے بتایا کہ فیروز پور، حسن پور گاؤں پر بلوائیوں نے حملہ کرنے کے لیے پہلے پوری طرح تیاری کی اور اس حملے کے لیے ایک فضا بھی تیار کی۔ یہی صورتحال 4اگست کو ’’فیروز پور‘‘ کی تھی جہاں پورے گاؤں میں مسلمانوںکو مارنے کی کوشش کی گئی لیکن کچھ نوجوانوں نے مقابلہ کیا لیکن کب تک آخر کار کچھ بھاگ گئے۔ میں نے فوری سوال کیا کہ یہ تو جگ بیتی ہے کچھ من بیتی بھی بتائیں! بس اتنا کہنا تھا کہ چہرے پر ایک رنگ آتا اور ایک جاتا پھر بڑی مشکل سے بولے میں اُس وقت میں گھر پر نہیں تھا جب بلوائیوں نے حملہ کیا، گھر پہنچا تو گھر اور محلے کے تمام مسلمان موت کی نیند سلا دیے گئے تھے۔ میر ے گھر اور قریبی رشتے کی 49 خواتین کا کہیں پتا نہیں تھا ایک سردار جی نے مجھے وہاں سے بھیس بدل کر نکالا میں پاکستان کے لیے نکل پڑا راستے میں ایک جگہ آگ لگی ہوئی تھی جہاں قریب پہنچنے کے بعد پتا چلا کہ خواتین کے کٹے اعضاء کے مینار کو آگ لگائی جارہی تھی میں اس وقت سکھ لباس میں تھا اس لیے کوئی پہچان نہیں سکا۔ کچھ آگے خواتین کو بے آبرو کرنے کے بعد قتل کیا جارہا تھا اور کچھ کو سرِبازار جمِ غفیر کے سامنے بے آبرو کرنے کا سلسلہ جاری تھا۔ پنجاب میں یہ ہر محلے اور شہر اور گاؤں کی یہی کہانی تھی اور آج ہم ان درندوں سے دوستی کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔
پھر مجھ سے ’’بابا دین محمد‘‘ پوچھنے لگے اور پاکستان میں کیا ہو رہا ہے۔ ہر بدمعاش، بدعنوان، بے غیرت، بے حیا، اسلام اور پاکستان دشمن غنڈہ اور طوائف ’’اسلامی جمہویہ پاکستان کا حکمران ہے یا بننا چاہتا ہے یا بن چکا ہے۔ بھارت میں ٹھاکر، سردار، بھائی اور انڈر ورلڈ کا کوئی بدمعاش جس نے اگست 47ء میں ہماری خواتین کو بے آبرو کیا آج وہاں کا راجا بنا ہوا ہے اسی طرح آج پاکستان میں 72 سال گزرنے کے بعد یہی سب کچھ شیخ، سید، چودھری، وڈیرے، سردار اور حکمران کر رہے ہیں، لوگ مہنگائی بے روزگاری کے ہاتھوں مجبور اپنی عزتوں کو ٹکے ٹکے میں لُٹانے کو تیار ہیں اور کوئی ان کی مدد نہیں کر رہا۔ ظلم کی چکی نہ ہی 1947 اور نہ ہی 2020ء میں بند ہو ئی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ’’جدید مشینری اور انداز نے لوگوں کو اگست 47ء میں پہنچا دیا ہے۔ بابا کے پاس سے اُٹھنے کے بعد میں یہی سوچ رہا ہوں ’’اگست47 سے اگست 2020 آ گیا لیکن ’مسلمانانِ ہند‘ کے آنسوؤں کی برسات نہ تھم سکی؟ دو قومی نظریے کی سچائی یہ ہے کہ بھارتی ہندو مسلمانوں کو آج تک اپنا نہیں سمجھ سکے۔ مسلمانوں میں سے کتنے ہی افراد نے ہندووانہ رسوم اپنا لیں اور ہندوؤں سے شادیاں تک کیں۔ اسلامی اصولوں کے خلاف چل کر بھی مسلمان ہندوؤں کو اپنا نہ بنا سکے۔ مسلمان اور ہندو کل بھی ایک نہ تھے اور آج بھی الگ الگ شناخت رکھتے ہیں۔ بھارت سیکولر ملک کہلانے کے باوجود تعصب اور انتہا پسندی کا گڑھ بن چکا ہے۔ یہ ہے وہ دو قومی نظریہ جس کا ذکر آج سے تقریباً 9 صدی قبل ابن ِ بطوطہ نے اپنے سفر نامے میں کیا تھا اور اس کے بعد سر سیّد احمد خان اور آج سے تقریباً 75 یا 80 سال قبل قائدِ اعظم محمد علی جناح نے پرچار کیا تھا اور جسے مجبوراً یا مصلحتاً نہ ماننے والے آج ایک عذاب میں مبتلا ہیں۔