رشتے میں والدین کی رضا مندی

191

مولانا رضی الاسلام ندوی

سوال: دو خاندان کے بالغ لڑکے اور لڑکی اگر آپس میں رشتہ کرنا چاہیں لیکن لڑکے کے والدین اپنے بیٹے کی پسند سے اتفاق نہ رکھتے ہوں تو ایسی صورت میں کیا لڑکا اپنے والدین کی ناراضی اور عدم موافقت کے باوجود یہ رشتہ کرسکتا ہے؟ شریعت میں والدین کی رضا مندی کا کہاں تک اعتبار کیا گیا ہے؟ براہ کرم قرآن وحدیث کے حوالے سے رہنمائی فرمادیں۔
جواب: والدین پر اولاد کے جو حقوق شریعت نے عائد کیے ہیں وہ یہ ہیں کہ والدین ان کی اچھی طرح پرورش و پرداخت کریں، انہیں تعلیم وتربیت سے آراستہ کریں اور جب وہ بالغ ہوجائیں تو ان کا نکاح کرنے میں جلدی کریں۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے لڑکیوں کے سرپرستوں کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا:
’’جب تمہارے پاس کسی ایسے شخص کی طرف سے پیغام آئے جس کا دین واخلاق تمہارے نزدیک پسندیدہ ہو تو اس سے (اپنی لڑکی کا) نکاح کردو۔ اگرتم ایسا نہ کروگے تو فتنہ اور بڑا فساد برپا ہوجائے گا‘‘۔ (ترمذی، کتاب النکاح)
والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد (لڑکا یا لڑکی) کا اچھے سے اچھا رشتہ کریں، اسی لیے وہ حتی الامکان خوب تلاش وتحقیق کے بعد اور چھان پھٹک کرکوئی رشتہ طے کرتے ہیں، لیکن تنازعہ اس وقت کھڑا ہوتا ہے جب والدین اور اولاد کی پسند و ناپسند میں اختلاف ہوجاتا ہے۔ والدین جو رشتہ پسند کرتے ہیں وہ کسی وجہ سے ان کے لڑکے یا لڑکی کو پسند نہیں آتا اور لڑکا یا لڑکی اپنے والدین کے سامنے اپنی پسند کے کسی رشتے کو نشان دہی کرتے ہیں تو وہ والدین کی نگاہوں میںنہیں جچتا، چنانچہ وہ اسے اپنی منظوری نہیں دیتے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ رشتے کرنے کے سلسلے میں والدین اور اولاد کی پسند و ناپسند میں ٹکراؤ ہو اور موافقت کی کوئی صو رت نہ نکل رہی ہو تو کس کی رائے کو ترجیح حاصل ہوگی؟
امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک اگر لڑکا یا لڑکی بالغ ہے تو وہ اپنی مرضی سے اپنا نکاح کرسکتے ہیں۔ ان کے لیے ولی کی اجازت ضروری نہیں ہے۔ مولانا مجیب اللہ ندوی نے امام ابوحنیفہ کے مسلک کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’بالغ لڑکے اور لڑکیوں کو شریعت نے یہ حق دیا ہے کہ وہ جس معقول مسلمان لڑکی یا لڑکے سے چاہیں، نکاح کرلیں۔ ولی کی اجازت کی ان کو ضرورت نہیں ہے، خواہ ولی اس رشتے کو پسند کریں یا نہ کریں۔ یہ امام ابوحنیفہ کا مسلک ہے۔ اسی کو تمام فقہائے احناف نے اختیار کیا ہے‘‘۔
(اسلامی فقہ، تاج کمپنی، دہلی)
ان کے دلائل یہ ہیں:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’پھر اگر (دو طلاق دینے کے بعد شوہر نے عورت کو تیسری بار) طلاق دے دی تو وہ عورت پھر اس کے لیے حلال نہ ہوگی، الا یہ کہ وہ کسی دوسرے شخص سے نکا ح کرلے)۔ ( البقرہ: 230)
اسی سورت میں آگے ہے: ’’جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ عدّت پوری کرلیں تو پھر اس میں مانع نہ ہو کہ وہ اپنے زیر تجویز شوہروں سے نکاح کرلیں، جب کہ وہ معروف طریقے سے باہم نکاح کرلینے پر راضی ہوں‘‘۔ (البقرہ: 232)
مزید ملاحظہ کیجیے: ’’اپنی ذات کے معاملے میں معروف طریقے سے وہ (عورتیں) جوکچھ بھی کریں۔ اس کی ذمے داری تم پر نہیں ہے‘‘۔ (البقرہ: 240)
سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیؐ نے ایک موقع پر نوجوانوں کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’اے نوجوانو! تم میں سے جو بھی نکاح کرنے کی قدرت رکھتا ہو اسے نکاح کرلینا چاہیے‘‘۔ (بخاری، مسلم)
مذکورہ بالا آیات اور حدیث دونوں میں نکاح کرنے کی نسبت لڑکے اور لڑکی کی طرف کی گئی ہے، اسے ان کے اولیا پر موقوف نہیں کہا گیا ہے۔
دیگر ائمہ کے نزدیک بغیر ولی کی اجازت کے نکاح جائز نہیں ہے۔ یہ حضرات بھی بعض آیات قرآن اور احادیث نبوی کو دلیل میں پیش کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور (اپنی لڑکیوں کے) نکاح مشرک مردوں سے بھی کبھی نہ کرنا جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں‘‘۔ (البقرہ: 221)
ابوموسیؓ سے روایت ہے کہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ولی کی اجازت کے بغیر نکاح درست نہیں‘‘۔ (ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ)
ام المومنین سیدہ عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے‘‘۔ یہ بات آپؐ نے تین بار فرمائی۔ (ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ)
درج بالا آیت اور احادیث میں لڑکیوں کے سرپرستوں کو مخاطب کیا گیا ہے یا ان کی اجازت کو مشروط کیا گیا ہے۔
علامہ ابن رشدؒ نے حقِ ولایت کے موضوع پرتفصیل سے بحث کی ہے۔ انہوںنے لکھا ہے کہ ہر فریق نے جو دلائل دیے ہیں وہ اس کے حق میں صریح نہیں ہیں، بلکہ ان میں مفہومِ مخالف کا بھی احتمال ہے۔ (بدایۃ المجتہد) ان دلائل میں بظاہر تضاد محسوس ہوتا ہے، لیکن یہ تضاد ایسا نہیں ہے کہ اسے دور نہ کیا جاسکے، بلکہ اِن میں بہ آسانی تطبیق دی جاسکتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک توجیہہ یہ کی جاسکتی ہے کہ قانونی طور پر تو بالغ لڑکا یا لڑکی اپنی پسند ونا پسندکے معاملے میں خود مختار ہیں، البتہ اخلاقی اور سماجی طور پر انہیں والدین یا اولیا کی مرضی کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اس لیے کہ والدین دنیا دیکھے ہوئے ہوتے ہیں، انہیں زمانے کے سردوگرم کا بخوبی علم ہوتا ہے، وہ تجربہ کار ہوتے ہیں، ساتھ ہی وہ اپنی اولاد کے سلسلے میں مخلص ہوتے ہیں، وہ جوکچھ رائے قائم کرتے ہیں اس کے پس پردہ اخلاص کارفر ہوتا ہے، جب کہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں پرعموماً جذبانیت غالب ہوتی ہے۔ اس لیے دانش مندی کا تقاضا ہے کہ تنازع ہونے کی صورت میں نوجوان اپنی پسند ونا پسند پر اصرار نہ کریں، بلکہ والدین کی رائے کوترجیح دیں اور اس پر سر تسلیم خم کردیں۔