متین فکری
اطہر ہاشمی اپنے بیوی بچوں اور دوست و احباب کے درمیان جس بے تکلفی سے رہتے تھے ان کے اچانک رخصت ہوجانے سے جتنا صدمہ ان لوگوں کو ہوا ہوگا ہم سیکڑوں میل دور بیٹھے ہوئے احباب اس کا اندازہ نہیں کرسکتے لیکن اس کے باوجود سکتے میں ہیں۔ ایک ہنستا بولتا، مسکراتا، گنگناتا اور پھلجڑیاں چھوڑتا ہوا آدمی کیسے اچانک ہمیں چھوڑ کر چلا گیا۔ آج کئی دن بعد ان کے بارے میں قلم اٹھایا ہے تو تصور میں یہ منظر ابھر رہا ہے کہ احباب کی مجلس جمی ہے اور اطہر ہاشمی میر مجلس بنے چہک رہے ہیں۔ سب کی توجہ ان کی طرف ہے وہ بات سے بات پیدا کرکے لوگوں کے دلوں کو مٹھی میں لیے ہوئے ہیں۔ ہر طرف واہ واہ ہورہی ہے۔ واہ ہاشمی صاحب کیا بات کہہ دی آپ نے! پھر اچانک اطہر ہاشمی صاحب جھاڑ کر اُٹھتے ہیں اور بھری مجلس سے باہر نکل جاتے ہیں اور ایک پکارنے والا پکارتا ہے تو ہاشمی صاحب تو چلے، وہ وہاں چلے گئے جہاں سے کوئی پلٹ کر نہیں آتا۔ یہ سنتے ہی مجلس پر سکتہ طاری ہوجاتا ہے۔ آہ ہاشمی صاحب کوئی ایسے بھی جاتا ہے۔ مجلس بھری ہوئی ہے سب لوگ بیٹھے ہوئے ہیں لیکن ایک شخص کے اُٹھ جانے سے ویرانی چھا گئی ہے۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے جہاں ایک شخص مرکز نگاہ بنا ہوا تھا اور ہر طرف واہ واہ ہورہی تھی اب ہر طرف آہ آہ ہورہی ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو حیرت سے تک رہے ہیں۔ شاید یہی زندگی کا انجام ہے۔
ذہن میں اطہر ہاشمی سے ملاقاتوں کی ایک فلم سی چل رہی ہے۔ پہلی ملاقات ان سے جماعت اسلامی کے ایک کل پاکستان اجتماع میں ہوئی ہے۔ کلین شیو بانکے سجیلے، ہاتھ ملاتے ہوئے مسکراتے ہیں۔ متین صاحب آپ کی تحریروں سے تو میں آپ کو جوان سمجھتا تھا لیکن آپ تو بزرگ نکلے۔ ڈاڑھی پر سفیدی کرا رکھی ہے، آخر اتنی جلدی بزرگ بننے کی کیا ضرورت تھی ’’وہ بولتے رہے اور ہم ان کی باتوں سے لطف لیتے رہے۔ پھر کئی سال بعد کراچی آنا ہوا تو ان کے چہرے پر بھی ایک خوبصورت ڈاڑھی جگمگارہی تھی۔ ہم نے مسکراتے ہوئے کہا ’’ہاشمی صاحب یہ کیا ’’قہقہہ لگاتے ہوئے بولے‘‘ پہلے تو ڈاڑھی اُگتی نہیں تھی اب اُگتی ہے تو خوب آگئی ہے میں ڈاڑھی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا قائل نہیں۔ اس لیے یہ بھی موج کررہی ہے اور ہم بھی موج کررہے ہیں۔ ڈاڑھی کے ساتھ مونچھ نے بھی رنگ جمالیا ہے۔ متین صاحب زیر مونچھ مسکرانے میں مزہ آتا ہے۔ واقعی ان کے چہرے پر بھری بھری ڈاڑھی اور مونچھ خوب بہار دے رہی تھی۔ کراچی میں ان کی پہلی رہائش گلستان جوہر کے چوتھی منزل کے فلیٹ میں تھی۔ ہم کراچی آتے تو ہمارا قیام بھی گلستان جوہر میں ہوتا اور پہلی فرصت میں ہاشمی صاحب سے ملاقات کی سبیل نکل آتی۔ ہمارا بھتیجا کامران، ہاشمی صاحب کے فلیٹ تک پہنچنے میں ہماری رہنمائی کرتا۔ ہاشمی صاحب موبائل پر اطلاع ملتے ہی خود نیچے اتر کر آتے اور لفٹ میں اوپر لے جاتے۔ پہلی مرتبہ کامران نے کھسکنے کی کوشش کی تو ہاشمی صاحب نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا ’’میاں تم کہاں بھاگے جارہے ہو‘‘ اوپر چلو تم سے بھی دو دو ہاتھ کرنے ہیں‘‘۔ چناں چہ فرشی نشست والے چھوٹے سے کمرے میں ہمیں بٹھانے کے بعد اس کا تعارف حاصل کیا پھر بولے کیا کرتے ہو اس نے بتایا کہ پاکستان اسٹیل میں ملازم ہے۔ ہاشمی صاحب مسکرائے ’’اچھا یہ بتائو میرٹ پر بھرتی ہوئے ہو، یا ایم کیو ایم کے کوٹے پر ہو‘‘ اس نے جواب دینے سے گریز کیا تو ہاشمی صاحب تاڑ گئے اور ہنستے ہوئے بولے ’’چلو ایم کیو ایم نے کوئی تو نیک کام کیا ہے‘‘۔
ایک دفعہ ہم کراچی آئے تو اس وقت مسلم پرویز صاحب جسارت کے منتظم اعلیٰ تھے۔ موبائل پر بات ہوئی تو پوچھا آپ اس وقت کہاں ہیں ہم نے پتا بتایا تو ان کی گاڑی ہمیں لینے آگئی۔ جسارت کے دفتر میں پہنچے تو انہوں نے بیٹھتے ہی کھانا منگوالیا اور اطہر ہاشمی سمیت کئی احباب کو کھانے کی دعوت دے دی۔ کھانے سے فارغ ہوئے تو مسلم پرویز صاحب بولے ’’آپ بزرگوں کی موجودگی میں میں اخبار کو درپیش بعض مسائل پر بات کرنا چاہتا ہوں‘‘ ہاشمی صاحب نے بڑی سنجیدگی سے ہماری طرف دیکھتے مسلم پرویز صاحب کو مخاطب کیا ’’ایک بزرگ تو یہ ہیں باقی اور کون بزرگ ہے جس کے لیے آپ نے جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے‘‘ مسلم پرویز مسکرانے لگے اور بات ختم ہوگئی۔ ہاشمی صاحب کی طبیعت میں مزاح رچا بسا تھا وہ سنجیدہ بات میں بھی مزاح کا کوئی پہلو نکال لیتے تھے۔ وہ زبان کی باریکیوں اور نزاکتوں کو خوب سمجھتے تھے۔ ان کا مشہورِ زمانہ کالم ’’خبر لیجیے زباں بگڑی‘‘ ان کی اردو زبان پر دسترس اور عربی و فارسی کے ساتھ ان کے گہرے تعلق کا آئینہ دار تھا جب کہ سیاسی کالم میں بھی وہ الفاظ سے کھیلتے اور چٹکی بھرنے کا ہنر خوب آزماتے تھے۔ اطہر ہاشمی صاحب سے ہفتے دو ہفتے یا مہینے میں ایک بار موبائل پر ضرور بات چیت ہوتی۔ کسی کالم کی اشاعت میں غیر معمولی تاخیر ہوجاتی تو ہم ان ہی سے گلہ کرتے۔ ہمیں یاد ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے بارے میں ایک کالم لکھا تو وہ روک لیا گیا ہم نے فون پر شکایت کی تو بولے ’’آپ کو پتا ہے کہ مولانا متحدہ مجلس عمل میں جماعت اسلامی کے اتحادی ہیں۔ جسارت جماعت اسلامی کا اخبار ہے ہم مولانا کے خلاف آپ کا کالم کیسے شائع کرسکتے ہیں۔ ویسے راز کی بات یہ ہے کہ کالم مزیدار ہے آپ چاہیں تو اسے کہیں اور چھپوالیں تاکہ جسارت بری الذمہ رہے‘‘۔
کئی سال پہلے ہاشمی صاحب کی زبان پر فالج کا خفیف سا حملہ ہوا، انہیں فوری طور پر آغا خان اسپتال لے جایا گیا جہاں ان سے بھاری تاوان وصول کرلیا گیا اور وہ اسپتال والوں سے اجازت لیے بغیر گھر واپس آگئے۔ اپنی بیماری کے بارے میں انہوں نے کالم لکھا تو ہماری بھی رگِ ظرافت پھڑکی اور ہم نے بھی ایک کالم لکھ مارا۔ جس میں اس بات کا ذکر تھا کہ دوستوں نے مزاج پرسی کے بہانے ہاشمی صاحب کا گھر دیکھ لیا ہے اب بار بار وہ گھر بدلنے سے تو رہے انہیں دوستوں کو بھگتنا ہی پڑے گا۔ ہاشمی صاحب کالم پڑھ کر محظوظ ہوئے اور موبائل پر کہنے لگے ’’میرے دوست بہت سادہ مزاج ہیں چائے کا بھی تقاضا نہیں کرتے اس لیے مکان بدلنے کی ضرورت نہیں‘‘۔
ہاشمی صاحب سے تعلق کی ایک فلم ذہن میں چل رہی ہے کہ غالب کا یہ شعر مطلعِ فکر پر نمودار ہوتا ہے اور پردہ گر جاتا ہے۔
تم کون سے ایسے تھے کھرے داد و ستد کے
کرتا ملک الموت تقاضا کوئی دن اور