وزیراعظم ملک کو دکان نہ سمجھیں

288

وزیراعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر نئے وعدے اور نئے سبز باغ کا سلسلہ شروع کردیا ہے اور وہی کہانی دہرائی ہے کہ خرابیوں کا سبب سابق حکمران تھے۔ وزیراعظم نے پھر کہا کہ اب مشکل ختم ہوگئی اور بہتری ہوگی۔ انہوں نے قوم کو نئی خوشخبری سنائی کہ نجی پاور کمپنیوں سے سستی بجلی کا معاہدہ ہوگیا ہے، اب عوام کو سستی بجلی ملے گی۔ وزیراعظم نے ہمیشہ کی طرح نئی پھلجھڑی چھوڑی کہ سابقہ حکومتیں معاہدوں کی وجہ سے بجلی مہنگی خرید کر سستی دے رہی تھیں۔ کوئی دکان بھی 10 کی چیز 5 میں بیچ کر نہیں چل سکتی۔ وزیراعظم نے عالمی کپ سے بھی بڑا چھکا مارا ہے ان کے خیال میں بہت بڑا نکتہ نکالا ہے لیکن اس سے ان کی ذہنی کیفیت کا اندازہ ہوگیا ہے کہ وہ ملک کو دکان سمجھتے ہیں اور دکان چلانے کے لیے اقتدار میں آئے تھے۔ چناں چہ ان کا ہر کام اس تناظر میں ہورہا ہے۔ کبھی آئی ایم ایف کی دکان پر جاتے ہیں کہ کچھ فائدہ ہوجائے گا، کبھی عالمی بینک کی دکان پر جاتے ہیں اور بالآخر کشکول اٹھا کر در در کی خاک چھانتے ہیں جو کامیابیاں تھیں وہ ایک ایک کرکے گلے کا ہار بن گئیں۔ قرضوں کی قسطیں سر پر آگئیں، سعودی عرب سے سستا تیل مشکل ہوگیا، نئی دکان نہیں مل رہی، پرانے دکانداروں کے پاس چلے گئے، پرانے آئی پی پیز سے نیا معاہدہ کیسے ہوگیا کہ بجلی سستی ملے گی۔ جو آئی پی پی دس روپے کی چیز بیچ رہی تھیں وہ اب بارہ کی تو بیچ سکتی ہیں۔ 8 کی تو نہیں بیچیں گی۔ عمران خان نیازی کی حکومت کو دو سال ہوچکے لیکن پچھلے حکمرانوں کا نام لے کر عمران خان اب تک مسائل کے حل سے جان چھڑا رہے ہیں۔ لیکن انہوں نے تو اپنی معذوری کا اظہار کردیا وہ ملک کو دکان سمجھ رہے ہیں اور دکانداری میں مصروف ہیں۔ کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ اب آئی پی پیز سستی بجلی کیسے دیں گی۔ اگر ملک میں کہیں بجلی نہیں ہے، پانی نہیں ہے، گھریلو استعمال کا ایندھن نہیں ہے تو اس کی فراہمی کس کی ذمے داری ہے۔ اگر لوگوں تک بجلی نہیں پہنچ رہی تو اس کا ذمے دار کون ہے، بجلی تو بنیادی ضروریات میں سے ہے ان کی فراہمی حکومت کی ذمے داری ہے اگر بجلی ہی کو کمائی کا ذریعہ بنالیا جائے تو ملک کیسے چلے گا۔ اگر حکومت اپنی بقیہ مدت میں کچھ کرنا چاہتی ہے تو اپنی سوچ بدلنی ہوگی۔ وزیراعظم نے خوش خبری دی ہے کہ دو سال سخت تھے عوام کے لیے اب بھی مشکل ہے لیکن معیشت بہتر ہونا لوگوں کو روزگار ملنا شروع ہوگیا ہے، ٹیکس وصولیاں بڑھ گئی ہیں۔ وزیراعظم بننے سے قبل عمران خان کچھ اور کہا کرتے تھے۔ وزیراعظم بنتے ہی ان کی دنیا ہی بدل گئی بلکہ انہیں آٹے دال کا بھائو معلوم ہو گیا۔ وزیراعظم کی ٹیم کے اوپننگ بیٹسمین اسد عمر پٹرول، بجلی اور گیس مہنگی ہونے پر سابق حکمرانوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ لیکن حکومت میں آنے کے بعد بجلی، گیس اور پٹرول مہنگا کرنے کے حق میں دلائل دے رہے تھے۔ یہی عمران خان کہا کرتے تھے کہ جس دن حکومت میں آئوں گا باہر سے اربوں روپیہ پاکستان لے آئوں گا۔ کرپشن سے لوٹی ہوئی دولت نکلوائوں گا اور سارے چوروں کا احتساب کروں گا لیکن دو سال میں ایک روپیہ باہر سے نہیں آیا۔ کرپشن سے لوٹی ہوئی دولت نہیں نکلی اور قوم کو پتا چلا کہ ملک میں صرف دو خاندان کرپشن کرہے تھے۔ باقی سب تو ان کی پارٹی میں آچکے ہیں باصلاحیت بن چکے ہیں۔ لیکن عمران خان صاحب کب تک نئے نئے راگ سناسنا کر قوم کی برداشت کا امتحان لیتے رہیں گے۔ یہ لوگ ہیں۔ پرانے بلکہ اب تو بے سُرے ہوگئے ہیں۔ کسی ملک کی حکومت کو دو سال گزر جائیں اور وہ سابقہ حکمرانوں کو الزام دیتی رہے تو اس کو لوگ متوازن نہیں سمجھیں گے۔ دو بجٹوں کے اثرات نے قوم کو بری طرح جکڑ لیا ہے۔ وزیراعظم پتا نہیں کون سی دنیا میں رہتے ہیں کہہ رہے ہیں کہ معیشت بہتر ہونا شروع ہوگئی ہے۔ وہ ذرا ان شعبوں کی نشاندہی کردیں جن میں معیشت بہتر ہوئی ہے۔ برآمدات کا بُرا حال ہے، صنعتوں کا پہیہ نہیں چل رہا ہے، لاکھوں لوگ صنعتوں سے بیروزگار ہوچکے ہیں لیکن وزیراعظم کو معیشت بہتر ہوتی نظر آرہی ہے۔ پورے ملک میں نجی شعبے سے لاکھوں لوگ بیروزگار ہوگئے ہیں۔ اسکولوں کالجوں کے اساتذہ بیروزگار ہیں۔ سبزی مارکیٹوں اور چھوٹی دکانوں پر کام کرنے والے لوگ بیروزگار ہیں یہ تعداد لاکھوں میں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پہلے دو سال میں ملک میں 30 لاکھ لوگ بیروزگار ہوچکے ہیں جس رفتار سے بیروزگاری بڑھ رہی ہے اس سے لگتا ہے کہ پانچ برس میں وزیراعظم اپنا ایک کروڑ ملازمتوں کا وعدہ پورا کردیں گے۔ ایک کروڑ لوگ ملازمت سے برخاست ہوں گے تو ان کی جگہ خالی تو ہوجائے گی۔ اسی طرح 50 لاکھ گھر بنانے کا وعدہ ہوا ہوگیا بلکہ ملک بھر میں لوگوں سے چھتیں چھینی جارہی ہیں۔ اور وزیراعظم حالات بہتر ہونے کی خوش خبری سنارہے ہیں۔ یا تو وزیراعظم کو جان بوجھ کر غلط رپورٹیں دی جارہی ہیں یا پھر واقعی وہ ملک کو دکان سمجھ کر چلارہے ہیں۔ اگر اس قسم کی سوچ ہے تو پھر وزیراعظم صاحب آپ کی دکان بند ہونے کا وقت آگیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ٹیکس وصولیاں بڑھ گئیں، وہ اب بھی جانتے ہوں گے کہ ٹیکس وصولیوں کے ہدف میں رواں سال کے لیے تین مرتبہ نظرثانی کی گئی ہے۔ 5 کھرب سے زیادہ والا ہدف اس سال 3908 ارب روپے رہ گیا لیکن مئی تک 250 میں سے 227 ارب روپے جمع ہوئے تھے اور جون کی رپورٹ بھی دیکھی جائے تو حکومت کو 372 ارب روپے کا خسارہ تھا۔ پتا نہیں جولائی اگست میں کس سے ٹیکس وصول کیا گیا کہ شرح میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو وزیراعظم تعلیم اور صحت کے بجٹ میں بھی اضافہ کردیں۔ لیکن دکانداری کرنے والے عوام کو ریلیف دینے والے کام نہیں کرسکتے بلکہ وہ اپنے منافع کی فکر میں ہی رہیں گے۔