جنرل حمید گل کا جہاد

629

جنرل حمید گل ہماری سپاہ کی تاریخ کا ایک جرأت مند اور روشن باب ہیں، 16 اگست کو ان کی پانچویں برسی ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون، موت برحق ہے۔ دنیا سے رخصت ہونے والا ہمیں یاد دہانی کراتا ہے کہ میں نے موت کا مزہ چکھ لیا تم اپنی فکر کرو، اصل زندگی کے لیے کچھ کر رکھنے کی فکر ہماری ہر فکر مندی پر غالب ہونی چاہیے۔ رخصت ہونے والا جتنا عزیز، جتنا قریب اور جتنا عظیم ہوتا ہے اس سے جدائی کا دُکھ بھی اتنا ہی شدید، اتنا ہی گہرا اور قلب کو تڑپانے والا ہوتا ہے، جنرل حمید گل سے بہت گہرا تعلق تھا، جب بھی ملتے مجھ سے بچوں کے نام لے کر ان کا حال معلوم کرتے تھے، ان کا انتقال بلاشبہ ایک بڑا نقصان ہے لیکن یہ نقصان میرے جیسے ہزاروں انسانوں کا نہیں بلکہ پورے پاکستان اور عالم ِ اسلام کا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ ان کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے، ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور ان کو جنت کے اعلیٰ مقامات سے نوازے۔ یہ بھی دُعا ہے کہ اس قوم کو وہ قیادت میسر آئے جس کا وژن ہر آلودگی سے پاک ہو، جس کی سیرت بے داغ ہو، جو عزم و ہمت کا پیکر ہو، جس کی منزل اور مشن اسلام کی سربلندی، پاکستان کے نظریاتی، سیاسی، معاشی اور تہذیبی وجود کا استحکام ہو، اور جو ملت اسلامیہ کے لیے ایک روشن مستقبل کی تعمیروتشکیل کے لیے سرگرم ہو۔
مارچ 1988ء میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جنیوا معاہدے پر بحث ہو رہی تھی، ان کو ارکانِ پارلیمنٹ کے سامنے افغان جہاد اور جنیوا معاہدے کے بارے میں بریفنگ کی دعوت دی گئی وزیراعظم محمد خان جونیجو چاہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح یہ معاہدہ ہوجائے، اور وزارتِ خارجہ نے ایسی بریفنگ دی تھی جو تصویر کا ایک خاص رُخ پیش کر رہی تھی قومی سلامتی کے ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے جنرل حمیدگل کو بریفنگ کی دعوت دی گئی اور وزیراعظم جونیجو کی توقعات کے برعکس انہوں نے بڑے مضبوط دلائل سے اور بڑے اعتماد اور بڑی جرأت کے ساتھ اس معاہدے کا پوسٹ مارٹم کر ڈالا اور تصویر کا وہ رُخ پیش کیا جسے چھپایا جا رہا تھا بریفنگ کے ورق جوں جوں پلٹے رہے اور وزیراعظم، ان کی کابینہ اور خصوصاً وزیر مملکت برائے خارجہ امور زین نورانی کے چہروں پر پریشانی بڑھتی رہی وزیر اعظم جونیجو نے بریفنگ کے دوران ہی نکتہ نگاہ جلد مکمل کرنے کی ہدأت کی، جنرل حمیدگل نے کسی
ناراضی کا اظہار کیے بغیر وہیں اپنی بات ختم کردی ارکان پارلیمنٹ بھانپ گئے کہ جنرل صاحب کی زبان بندی کی گئی ہے۔ جھنگ کی ایک معزز رکن اسمبلی سمیت دیگر بہت سے ارکان تھے جو یہ بات کہہ رہے تھے کہ ایسی بریفنگ پہلے سنی نہ دی گئی پارلیمنٹ میں چھوٹی سی حزبِ اختلاف نے جنیوا معاہدے کی مخالفت کی صاحبزادہ یعقوب علی خان بھی اس صورت حال پر مضطرب تھے، آج افغانستان میںجو کچھ بھی ہورہا ہے اس کے نتائج آج تک ہم اور پورا خطہ بھگت رہا ہے۔
جنرل صاحب سے پہلی باضابطہ ملاقات ان کی ریٹائر منٹ کے بعد ان کی رہائش گاہ پر ہوئی، کچھ عرصہ کے بعد انہوں نے مختلف شہروں کے دورے شروع کیے، اور تحریک اتحاد بنائی، سینیٹر طارق چودھری، ہارون رشید سمیت دیگر بہت سے افراد ان کے ہم نوا بنے، جنرل گل سے جو تعلق قائم ہوا تو پھر اس میں وقت کے ساتھ ساتھ بڑھوتری آتی چلی گئی۔ جماعت اسلامی کا ایک وفد جس کی سربراہی محترم قاضی صاحب کر رہے تھے وفد میں مولانا جان محمد عباسی، مولانا عبدالحق بلوچ، پروفیسر ابراہیم، خلیل حامدی بھی شامل تھے، افغانستان کے صدر پروفیسر ربانی کے مہمان بنے، جنرل حمیدگل بھی وہیں ایک دوسرے مہمان خانے میں ٹھیرے ہوئے تھے، پروفیسر ربانی، احمد شاہ مسعود، پروفیسر سیاف اور حکمت یار کے ساتھ ملاقاتیں دن بھر چلتی رہتیں یہ رابطے افغانستان میں امن کے قیام کے لیے تھیں جنرل حمیدگل پر تمام افغان رہنمائوں کا اعتماد تھا سب مجاہد رہنما ان کی عزت کرتے تھے، ان کی رائے کو وزن دیتے تھے جنرل حمیدگل ایک باخبر انسان تھے ان کا مطالعہ وسیع تھا اور ان کی فکر بہت بیدار تھی۔ اقبال اور مولانا مودودی کی کتب کا مطالعہ وہ کرچکے تھے عسکری اور بین الاقوامی اُمور پر ان کا مطالعہ وسیع تھا اور وہ حالاتِ حاضرہ سے باخبر تھے وہ دوستوں کے دوست تھے میڈیا سے بھی ان کی اچھی راہ و رسم تھی دینی اور سیاسی حلقوں میں بھی ان کا بہت احترام تھا جنرل حمیدگل ایک اچھے انسان، ایک محبِ وطن پاکستانی، اسلام کے ایک شیدائی اور پختہ پیشہ ور فوجی تھے انہیں اپنی بات پر بڑا اعتماد ہوتا تھا، جنرل مشرف سے انہیں بہت سے گلے تھے، میاں شریف کی وفات کے بعد نواز شریف کی فیملی انہیں باپ کا درجہ دیتی تھی، اور انہیں اس کرسی پر بٹھاتی رہی جس پر میاں شریف بیٹھے تھے، میاں شریف کے انتقال کے بعد اگر کوئی اس کرسی پر بیٹھا ہے تو وہ جنرل حمید گل ہیں۔ جنرل حمید گل نے ایک بھرپور زندگی گزاری اور زندگی کے آخری لمحے تک وہ متحرک رہے اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتوں کی بارش کرے، آمین!