سترہ اگست ۱۹۸۸ کو ایک حادثے نے جنرل محمد ضیاء الحق کو ہم سے چھین لیا، یہ حادثہ جنرل ضیاء الحق کے خاندان کے لیے یہ ایک بڑا صدمہ تھا لیکن امت مسلمہ اور خصوصاً افغان‘ کشمیری اور فلسطینی مجاہدین کے لیے یہ حادثہ کسی قیامت صغری سے کم نہیں تھا‘ جن کی اگلی منزل مسلمانوں کو جبر سے آزادی دلانا تھی‘ سری نگر‘ اور فلسطین کو آزاد کرانا تھا‘ یہی وجہ تھی کہ بھارت، اسرائیل، امریکا اور روس سب انہیں اپنی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے۔ سترہ اگست کے حادثے میں جنرل ضیاء الحق سمیت پاک فوج کے انتیس افسروں اور جوانوں کی شہادت ایک بڑا قومی نقصان بھی تھا۔ جنرل ضیاء الحق اہل پاکستان کے لیے تو جرنیل تھے لیکن امت مسلمہ کے لیے وہ ایک رہنماء تھے جن سیاسی حالات میں انہیں ملک کا نظم و نسق سنبھالنا پڑا بلاشبہ یہ ملک کے لیے نہایت غیر معمولی حالات تھے۔ مشرقی پاکستان کو ہم سے الگ ہوئے صرف سات سال گزرے تھے اور پاکستان کے قیام کے تیس سال ہونے والے تھے ایک فوجی جرنیل کے طور پر سیاست میں آنا‘ ملک کا نظم و نسق سنبھالنا کسی بھی جمہوری معاشرے میں قابل قبول نہیں سمجھا جاتا لیکن جنرل ضیاء الحق نے جن حالات میں یہ قدم اٹھایا پوری قوم نے ملک میں مخصوص سیاسی حالات کے باعث ایک نجات دہندہ کے طور پر ان کا خیر مقدم کیا‘ سیاسی لحاظ سے یقینا اس پر بہت بات کی جاسکتی ہے۔
بلا شبہ پاکستان ایک اسلامی، آئینی اور جمہوری ملک ہے، ہم ایٹمی قوت بھی ہیں، یہاں پارلیمانی نظام ہے اور جس کے باعث صرف اور صرف ووٹ کی طاقت سے حکومتیں قائم ہونی اور تبدیل ہونی چاہیے اس کے علاوہ اور کوئی بھی طریقہ آئین میں موجود نہیں ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کے نافذ کے خلاف بیگم نصرت بھٹو نے اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کیا، اس کیس کا فیصلہ لکھا گیا تو اپنے فیصلے میں عدالت نے واضح کیا کہ ’’جب ملک میں آئینی مشینری ناکام ہوجائے‘ حکومت شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی پاس داری نہ کرے‘ ان کے جان و مال کے تحفظ کی ذمے داری پوری کرنے کے قابل نہ رہے تو ملک میں غیر جمہوری اقدام جائز سمجھا جاسکتا ہے، یہ فیصلہ عدالت عظمیٰ نے دیا تھا اسے نظریہ ضرورت کا فیصلہ کہا گیا۔ عدلیہ کے اس فیصلے پر آئینی ماہرین‘ سیاسی تجزیہ کار اور قانون دانوں نے ردعمل میں اپنی رائے دی اور آج تک اس پر بحث ہوتی رہتی ہے لیکن انصاف پسند اور قانون پسند سیاسی رہنماء کوئی اس بات سے ا نکار نہیں کر سکتا کہ جمہوری حکومت کے فرائض میں یہ بات ہمیشہ شامل رہنی چاہیے کہ وہ آئین کے مطابق شہریوں کو ان کے بنیادی‘ سیاسی‘ سماجی‘ معاشی حقوق دینے کی پابند رہے گی اور اگر جمہوریت شہریوں کو یہ حق نہ دے اور متبادل راستہ بھی نہ ہو پھر کیا کیا جائے۔ جواب یہ ہے کہ پھر اس کے لیے دو راستے ہیں نئے انتخابات کرائے جائیں‘ آئین خود اپنا راستہ بنائے لیکن مارچ ۱۹۷۷ کے عام انتخابات میں دھاندلی کی بے شمار جائز شکایات کے باوجود پر حکومت نے اس پر دھیان نہیں دیا تو رد عمل میں ملک میں عوامی تحریک شروع ہوئی تھی جس کے بعد پاکستان قومی اتحاد اور پیپلزپارٹی کے مابین ہونے والے مذاکرات کامیاب ہوئے یا نہیں‘ اس وقت ان مذاکرات میں شریک کوئی بھی شخصیت حیات نہیں ہے تاہم پروفیسر غفور احمد اور کوثر نیازی نے اس موضوع پر کتابیں لکھی ہیں‘ ان شخصیات کی اس وقت کی تحریریں‘ بیانات اور سیاسی جدوجہد کے دوران عوا م کے سامنے رکھے ہوئے بیانیے آج بھی تاریخ کا حصہ ہیں‘ پروفیسر غفوراحمد کی کتاب میں گواہی موجود ہے‘ اگرچہ یہ بات کہی جاتی ہے کہ مذاکرات کامیاب ہوچکے تھی بس دستخط باقی تھے‘ یہ دستخط کیوں نہ ہوئے‘ بھٹو صاحب کیوں ادھورا کام چھوڑ کر بیرون ملک دورے پر چلے گئے ان سوالوں کا تسلی بخش جواب آج تک نہیں مل سکا۔ اگر ۱۹۷۷ میں ملک میں اور سرحدوں پر پیش آنے والے حالات اور واقعات کا جائزہ لیں اور اس کے ساتھ جوڑ کر جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کو دیکھا جائے تو ہمیں یہ بات ضرور ذہن میں رکھنا ہوگی کہ اس وقت افغانستان میں روس جارحیت کر چکا تھا‘ اور پاکستان پر اس کے اثرات بھی ظاہر ہونا شروع ہوچکے تھے۔ اسے بھارت کی مکمل تائید اور حمایت حاصل تھی۔ ملک میں سیاسی انتشار اور خلفشار کی کیفیت تھی اور حکومت اپنی اس ذمے داری کو پہچاننے سے گریز کر رہی تھی یا اسے ادراک نہیں تھا‘ اس کا جواب ہم تاریخ پر چھوڑ دیتے ہیں تاہم جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کی بحث بھی ایک جانب رکھ دیتے ہیں، ہم انہیں بطور انسان اور حکمران کے طور پر دیکھتے ہیں کہ وہ کیسے انسان تھے اور کیسے حکمران تھے‘ جب ان کی خوبیوں کا ذکر ہوگا تو سب سے پہلے یہ بات ہوگی وہ ایک خوف خدا رکھنے والے حکمران تھے۔ محب وطن تھے۔ وطن کے دفاع کے لیے اپنی جان قربان کر دینے والے حکمران تھے کہ بطور فوجی ان کی تربیت ہی یہی تھی‘ یہ بات بالکل طے ہے کہ مارشل لا ہو یا سول حکمرانی‘ جمہوریت ہو یا شخصی راج‘ کوئی بھی نظام اس وقت تک نہیں چل سکتا جب تک اسے عوام کی کھلی حمایت اور تائید نہ ہو‘ جنرل ضیاء الحق کو بھٹو حکومت کے طرز عمل کے باعث عوام کے ایک بڑے طبقے نے قبول کیا‘ جنرل ضیاء الحق اگر نوے روز کے اندر انتخابات کراکے واپس چلے جاتے تو آج وہ ملک کے غیر متنازع رہنماء ہوتے اور تاریخ میں انہیں اپنے اور پرائے دونوں یکساں نظروں سے دیکھتے لیکن وہ یہ کام نہیں کر سکے اور ان کا اقتدار گیاہ برسوں تک محیط رہا۔ بھٹو کی پھانسی نے ملک میں سیاسی تلخیاں بھی پیدا کیں۔