اسرائیل کی سابق وزیراعظم گولڈا میئر جنہوں نے اسرائیل کو مضبوط بنانے میں اہم اور کلیدی کردار ادا کیا ہے ان کی زندگی پر ایک فلم بنائی گئی ہے۔ اس فلم کے آخری منظر میں دکھایا گیا ہے کہ وہ ایک اخباری رپورٹر سے گفتگو کررہی ہیں۔ رپورٹر نے سوال کیا کہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کب قائم ہوگا۔ جواب میں گولڈا میئر نے کہا کہ ’’جب عربوں سے نفرت کے بجائے محبت ہوجائے گی اور وہ اپنے بچوں کو جہاد کے بجائے جمود اور ترقی کے سفر پر گامزن کریں گے‘‘۔ یہ سوال شاید 1960ء سے 1974ء تک عربوں کی سمجھ میں نہیں آیا اور اب بھی حماس اور حزب اللہ کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے لیکن اس کے برعکس مسلم حکمران جن میں اکثر کی تعلیم و تربیت یورپ کے کلیسا طرز کے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہوئی ہے آج امریکا، بھارت اور اسرائیل کو اپنا نجات دہندہ قرار دیتے ہوئے اس کے قریب اور مسلمانوں سے دور ہوتے جارہے ہیں۔
4 اگست کو لبنان میں بم دھماکے کے بعد عرب امارات میں موجود ’’برج ِخلیفہ‘‘ پر رنگ نور کی آمیزش سے لبنانیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے لبنان کا جھنڈا بنایا گیا لیکن 13 اگست سے اسی ’’برج خلیفہ‘‘ پر لبنان ہی کیا پورے عرب اور پاکستان کے دشمن اور ’’مسلمانوں کے قاتل اسرائیل کا جھنڈا برج خلیفہ پر رنگ و نور سے چمک رہا ہے‘‘ اور اسی امارات میں 20 مارچ 2020ء سے مساجد میں تالے لگے ہوئے جہاں عید و عید قرباں کی نمازیں بھی مسلمانوں کو گھروں میں حکمرانوں کے حکم پر پڑھنی پڑی ہیں۔
13 اگست کو عرب امارات اور اسرائیل کے غیر سرکاری سفارتی تعلقات تو قائم ہیں لیکن اب یہ تعلقات سرکاری سطح پر قائم کرلیے گئے ہیں۔ میں بتانا یہ چاہتا ہوں کہ امارات اور اسرائیل کے ایک طویل عرصے سے غیر اعلانیہ سرکاری تعلقات موجود ہیں۔ یہی نہیں بلکہ کم و بیش پاکستان سمیت تمام ہی اسلامی ممالک کے اسرائیل سے بہت عرصے سے غیر سرکاری تعلقات قائم ہیں۔ ان میں ترکی، شام، مصر، سعودی عرب اور ایران و پاکستان بھی شامل ہے۔
امارات اور اسرائیل کا حیران کن پہلو یہ ہے کہ یہ معاہدہ امریکی انتخابات سے صرف 70 دن قبل ہوا ہے۔ اس معاہدے کا اعلان عام معاہدوں کی طرح نہیں ہے اس کا طرز عمل مختلف ہے۔ معاہدہ امارات اور اسرائیل کے درمیان ہوا لیکن اس معاہدے کا پہلا ’’ٹویٹ‘‘ امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے سامنے آیا کہ اسرائیل اور امارات کے درمیان معاہدے سے مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہوجائے گا اور اس کے برعکس عرب امارات کی جانب سے معاہدے کے بعد یہ ردعمل سامنے آیا ہے کہ اس معاہدے سے ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیل کے درمیان طے پانے والا معاہدہ ’’ڈیل آف دی سنیچری‘‘ کا خاتمہ ہوگیا ہے اور اس کو روک دیا گیا ہے لیکن ’’اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو‘‘ کا کہنا ہے ’’ڈیل آف دی سنیچری‘‘ رکا نہیں ہے کچھ عرصے کے لیے ملتوی ہوا ہے اور یہ لازمی عمل ہوگا۔ اس طرح امریکا، اسرائیل اور امارات کے ابتدائی بیان میں الفاظ کا تضاد صاف نظر آرہا ہے یہ ایک اہم بات ہے۔ اس معاہدے کے بعد دو اور ممالک ’’بحرین اور اومان‘‘ بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کی تیاریاں کررہے ہیں۔ اس معاہدے کو حتمی شکل تین ہفتوں میں دے دی جائے گی۔
سوال یہ ہے امریکا اب کیا کرے گا اور پاکستان کا ان حالات میں کیا کردار ہے پاکستان کو اس وقت عرب ملکوں کا سربراہ سعودی عرب سے لڑنے کے بجائے اور ’’او آئی سی‘‘ کی کارکردگی کو بار بار یاد کرنے کے بجائے بھارت سے فوجی سفارت کاری بہت مضبوط انداز سے کرنے کی ضرورت ہے۔
امریکا، اسرائیل اور امارات اتحاد کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ایران پاکستان اور جوبائیڈن کو یہ بتادیا جائے کہ اب خطے میں بھارت، امریکا، امارات، بھارت اور اسرائیل اتحاد بن چکا ہے اور یہ مضبوط اتحاد ایشیا کو کنٹرول کرے گا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جوبائیڈن نے اپنی نائب صدر کے لیے بھارتی نژاد کملا ہیرس کا اعلان کیا ہے۔ کملا کے شوہر یہودی اور والدہ کا تعلق چنائے بھارت سے ہے ان کی والدہ 20 سال کی عمر میں امریکا چلی گئی تھیں۔
یکم جولائی 2020ء کو اپنے کالم ’’جوبائیڈن کا کشمیر‘‘ میں لکھا تھا کہ! امریکی میں ڈیموکریٹس کے صدارتی امیدوار جوبائیڈن نے انتخابی مہم کے دوران یہ اعلان کیا کہ مودی نے کشمیر میں آرٹیکل 370 اور 35-A میں تبدیلی کرکے بھارت کو خطرناک صورت حال سے دوچار کردیا ہے۔ جوبائیڈن یہ بھی کہا کہ آ رٹیکل 370 اور متنازع شہریت بل بھارت میں انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے بھارت کی مخالفت اور کشمیریوں کی حمایت میں جس طرح کھل کر بات کی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ’’امریکا کی انتخابی مہم میں کشمیر ایک برننگ ایشو کے طور پر قائم و دائم رہے گا‘‘۔
جوبائیڈن کی نائب صدر امیدوارکملا ہیرس کی نگرانی میں ری پبلکن پارٹی کا انتخابی منشور تیار ہوا ہے اور اس کا اعلان کملا ہیرس نے کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ جوبائیڈن کی کامیابی کی صورت میں کشمیر کے لیے بھارتی آرٹیکل 370 اے 35 کا خاتمہ اور بھارتی مسلمانوں پر مظالم و شہرت بل کو بھارتی حکومت کو ختم کرنا ہوگا اور امریکا اس بل کو تسلیم نہیں کرے گا۔ منشور میں کہا گیا ہے کہ!
امریکا ٹرمپ حکومت کی ’’ڈیل آف دی سنیچری‘‘ کو جوبائیڈن حکومت کبھی تسلیم نہیں کر ے گی اور ’’ڈیل آف دی سنیچری‘‘ کی حمایت ختم کر دی جائے گی۔ امریکا دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف جاری کارروائیوں کی مخالفت کرے گا۔ یہ ساری صورتحال امریکا میں پہلی مرتبہ ہو رہا ہے قبل ازیں امریکا کا صدارتی امیدوار ’’امریکا میںمقیم یہودی اور دوسرے بھارتی نژاد امریکیوں‘‘ کے لیے الگ الگ جلسوں کا انعقاد کرتا تھا اور ان دونوں ممالک کے بارے میں اپنی پالیسیاں بیان کرتا تھا جس میں امیدوار ان کو اپنی حمایت کا یقین دلاتا تھا۔
The jerusalem Post نے امارات اسرئیل ڈیل کے بارے میں کہا کہ! The Israel -UAE Agreement :A messsge to Iran, the Palestinians and Biden ’’امارات اسرئیل معاہدہ ایران فلسطین اور جو بائیڈن کے لیے پیغام ہے‘‘۔ اس پیغام سے اس معاہدے کی عجلت میں منظوری کی ایک وجہ یہی ہے کہ امریکا کو دنیا میں ایک بڑے ملک کے طور پر پیش کیا جائے تاکہ ڈونلڈ ٹرمپ پر لگے الزامات کا کفارہ ادا کیا جا سکے اور امریکی عوام کو بتایا جائے کہ امریکا آج بھی دنیا میں ایک اہم ملک ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت اور جوبائیڈن کی مخالفت میں بھارت اسرائیل یکجا ہوگئے ہیں۔ مسلمان حکمران ترقی کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہیں۔ ان کو بتاتا چلوں کہ! گولڈا مئیر کا انٹرویو میں یہ بھی کہنا تھا کہ ’’تاریخ فتوحات گنتی ہے دستر خوان پر پڑے انڈے جیم اور مکھن نہیں۔ کاش مسلم ممالک کے حکمرانوں کو گولڈا مئیر کی بات سمجھ میں آجائے۔