کراچی کی ہمدردی میں بد نیتی

376

کئی دن سے مظلوم کراچی کے مسائل کے حوالے سے وفاقی حکومت کی بے چینی اور سندھ حکومت کی برہمی جاری تھی جس کے بعد اتوار کے روز اچانک صبح صبح شہر اور ملک میں یہ خبر پھیلی کہ کراچی کے لیے پی ٹی آئی، پی پی پی اور ایم کیو ایم متحد ہوگئے ہیں۔ ایک کمیٹی بھی بن گئی ہے۔ مشترکہ ایڈمنسٹریٹر بھی مقرر کرنے پر اتفاق ہوگیا ہے ایک اطلاع کے مطابق بڑی چالاکی سے یہ شق بھی شامل کرائی گئی کہ مالی معاملات کے لیے الگ پول قائم کیا جائے گا یعنی حکومت سندھ کو باہر کرکے وفاق اور ایم کیو ایم راحت بھری مصیبت اپنے سر لینے کو تیار تھے۔ پیر کے روز ملک بھر کے اخبارات اس خبر سے بھرے ہوئے تھے کہ جنرل افضل کی موجودگی میں تینوں جماعتیں کراچی کے مسائل حل کرنے کے لیے متفق ہوگئی ہیں۔ لیکن پیر کی شام کو وزیراعلیٰ سندھ نے ایسے کسی معاہدے سے انکار کردیا اور کہا کہ کوئی کمیٹی بھی نہیں بنی ہے۔ ہم سندھ کے اختیارات میں کسی کو شریک نہیں کرینگے۔ اختیارات کا استعمال حکومت کا ایگزیکٹیو پاور کا مسئلہ ہے پارٹیاں انتظامی اختارات استعمال نہیں کرسکتیں۔ کسی کے دماغ میں یہ فتور ہے کہ سندھ کے اختیارات تقسیم کیے جائیںگے تو وہ اسے نکال دے اس سے سندھ کے عوام کو تکلیف ہوتی ہے۔ کمیٹی کی صرف بات ہوئی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی کمیٹیاں صرف سیاسی کاموں کے لیے بنتی ہیں۔ ہندوستان کشمیرکے ساتھ کیا کررہا ہے اس طرف سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ واہ بہت خوب ،کشمیر کے لیے حکومت سندھ نے کیا کارنامہ کیا ہے ۔ وہ تو کشمیر ریلی پر حملہ کرنے والوں کو نہیں پکڑ سکے ۔وزیر اعلیٰ نے یہ بات ضرور کہی کہ کچھ کام نہیں ہوسکے لیکن وفاق نے دو سال سے 245 ارب روپے نہیں دیے پھر بھی وفاق کے ادارے این ڈی ایم اے کو کام تو کرنے دے رہے ہیں ان کے ساتھ بھرپور تعاون ہے وزیراعلیٰ سندھ نے ماضی کی بارش اور اس کے نقصانات کا موازنہ بھی کیا ان کا دعویٰ ہے کہ ہم نے وسائل نہ ہونے کے باوجود بہت کام کیے ہیں۔ لیکن اہل کراچی جاگتی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ شہر ڈوبا ہوا ہے اور اب بھی بہت سے علاقوں سے پانی نہیں نکلا ہے مزید بارش کی پیشگوئی کا سن کر شہری کانپنے لگتے ہیں۔ اگر کراچی کے نالے صاف نہیں ہوئے، بجلی غائب ہوجاتی ہے، سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ گٹر بہہ رہے ہیں تو یہ کس کی ذمہ داری ہے۔ یہ سارے کام تو صوبے اور بلدیات کے ہیں لیکن جب کچرا اٹھانے، سڑکیں بنانے اور صفائی کی بات ہوتی ہے تو یہی وزیراعلیٰ کہتے ہیں کہ بلدیات کام کریں اور بلدیات بھی وہی جواب دیتی ہیں جو وزیراعلیٰ نے دیا ہے کہ ہمیں حکومت سندھ فنڈز نہیں دیتی۔ وزیراعلیٰ سندھ اتوار کے روز نہ جانے کس دبائو میں تھے کہ انہوں نے یہ خبریں جانے دیں کہ تینوں پارٹیوں میں کراچی کے مسئلے پر معاہدہ ہوگیا ہے اور کوئی تردید نہیں کی۔ صرف مرتضیٰ وہاب کا یہ تبصرہ سامنے آیا وہ بھی ایک ٹی وی پروگرام میں کہ آئینی اعتبار سے انتظامی امور سندھ حکومت ہی دیکھے گی۔ کراچی کو بہترین میئر اور سٹی ناظم دینے والی جماعت اسلامی نے اس سارے معاملے کو ڈرامے کے طور پر دیکھا ہے اور امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم نے کہا ہے کہ کراچی پر تینوں جماعتوں کا اتحاد محض پوائنٹ اسکورنگ ہے۔ یہ تینوں جماعتیں تو شہر کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوچکی ہیں۔ ایم کیو ایم 35 برس حکومت میں رہی ہے۔ ان پارٹیوں نے کراچی کے عوام کا استحصال کیا ہے۔ حافظ نعیم کا کہنا ہے کہ یہ پارٹیاں کیسے کراچی کی خدمت کرسکتی ہیں انہوں نے تو شہر کو تباہ کیا ہے۔ حافظ نعیم کی قیادت میں تو جماعت اسلامی نے اس شہر کے لوگوں کے شناختی کارڈ کے مسائل حل کرائے۔ کے الیکٹرک کیخلاف آواز اٹھائی، گزشتہ دنوں بارش اور سیلاب میں صرف جماعت اسلامی کے کارکن سڑکوں پر تھے۔ وبا کا شکار لوگوں کی مدد بھی وہی کر رہے تھے ۔لہٰذا ان کی بات میں وزن ہے۔ اصل بات یہی ہے کہ حکومت پاکستان اور صوبہ سندھ کی حکومت کراچی کے ساتھ سوتیلا سلوک کر رہے ہیں۔ کیا حکومت سندھ کراچی کے وسائل پر کنٹرول کے لیے اسی قسم کے کھیل نہیں کھیل چکی جو وفاقی حکومت نے اب کھیلنے کی کوشش کی ہے ۔ حکومت سندھ کو یہ قانونی موقع حاصل تھا کہ اس نے اسمبلی کے ذریعے بلدیہ کراچی کے کئی اداروں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ۔ اسی طرح کئی اداروں کو جن کا کام صرف کراچی کے لیے خدمات فراہم کرنا تھا انہیں بھی اپنے کنٹرول میں لے لیا ۔ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اس کی سب سے بڑی مثال ہے ۔ اس کے تمام وسائل اب سندھ حکومت کے کنٹرول میں ہیں ۔ وفاق کو یہ موقع حاصل نہیں اس لیے وہ اُلٹے سیدھے ہتھکنڈے اختیار کر رہا ہے ۔ کمیٹی والاڈرامابھی نہیں چل سکا ۔ کراچی کے وسائل پر صوبائی حکومت کے کنٹرول کے وقت بلدیہ والے تو نہیں بولے لیکن جواب تو یہی آناچاہیے تھا کہ شہر کے وسائل اورانتظامی امور میںکسی سے شراکت نہیں کریں گے ۔ اس کے عوض کراچی کو صوبے نے کیا دیا ۔ اگر حکومت پاکستان سندھ کے حصے کے245 ارب روپے دے بھی دیتی تو اس بات کی کیا ضمانت تھی کہ اس میں سے سوا سو ارب روپے کراچی پر بھی لگیں گے ۔ مسئلہ یہی ہے کہ کراچی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والی پارٹی ایم کیو ایم کو بھی وفاق نے اپنے ساتھ کمیٹی میں شامل کیا ہے اور مشترکہ ایڈ منسٹریٹر لانے کی بات کی گئی ہے ۔ حالانکہ ایڈ منسٹریٹر کا تقرر کرنا تو خالص حکومت سندھ کا مسئلہ ہے اس کام میں وفاق کو بے چینی کیوں ہے ۔ مزید یہ کہ مالی معاملات کے لیے الگ پول بنانے کی بات بھی بد نیتی پر مبنی لگتی ہے ۔ ان کے ذریعے حکومت سندھ کا کنٹرول ختم کر کے وفاق کے کسی نمائندے یا ایم کیو ایم کو یہ فنڈز دیے جائیں گے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے ایک بات کہی ہے کہ ایگزیکٹیو پاورز حکومتوں کا کام ہوتا ہے پارٹیوں کا نہیں اور پارٹیوں کے درمیان سیاسی امور پر معاہدے ہوتے ہیں کمیٹیاں بنتی ہیں ۔ ان کی بات بالکل بجا ہے لیکن جس وقت کل کراچی کے وسائل کی لوٹ مار میں ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی اور اے این پی ایک دوسرے کے لوگوں کو قتل کر رہے تھے تو پیپلز پارٹی کے رحمن ملک لندن جا کر الطاف حسین سے ملاقات کرتے پھر کراچی آ کر اے این پی سے ملاقات کرتے اس کے بعد قائم علی شاہ ، اے این پی کے رہنما اور ایم کیو ایم کے رہنما مشترکہ پریس کانفرنس کرتے تھے ۔ اس میں ایگزیکٹیو اختیارات سمیت ساری باتیں شامل ہوئی تھیں ۔ اور خصوصاً ایک دوسرے کو قتل کرنے والوں کا معاملہ پولیس اور عدالت کے حوالے کرنے کے بجائے کمیٹی حل کر دیتی تھی ۔ یہ بھی ایک کھلا ہوا تضاد ہے ۔ جو کام خود کرتے ہیں وہ درست اور دوسرا کرے تو غلط ۔ اب تک کراچی کی ہمدردی میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بہت واضح طور پر بد نیتی پر مبنی نظر آرہا ہے ۔ بلکہ کراچی کے شہری تو بر ملا کہہ رہے ہیں کہ ان تینوں میں سے کسی کو کراچی سے کوئی ہمدردی نہیں ہے ۔ بلکہ یہ صرف کراچی کے وسائل پر کنٹرول چاہتے ہیں ۔وفاق نے فنڈز نہیں دیے سندھ نے بلدیہ کو فنڈز نہیں دیے ۔ سندھ حکومت اور بلدیہ فنڈز اور اختیارات نہ ہونے کا رونا روتے رہے ہیں بلدیہ کے پانچ برس پورے ہو گئے ۔ وفاقی حکومت اپنے حصے کی رقم تو دیتی نہیں ۔ اس کے کئی ارکان اسمبلی کراچی سے تعلق رکھتے ہیں ان کو دیے گئے ترقیاتی فنڈز سے درجنوں سڑکیں چمک گئی ہوتیں ۔ درجنوں پارکس سر سبز و شاداب ہو چکے ہوتے ۔ پانی کا کوئی منصوبہ ان ایم این ایز کے فنڈز سے ان ہی کے نام سے شروع ہو چکا ہوتا لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ سب کراچی پر کنٹرول چاہتے ہیں ۔ اس کی خدمت نہیں ۔ کراچی کے مسائل کا واحد حل یہاں شفاف انتخابات ہیں ۔ اور یہ تینوں گروپ کراچی میں شفاف انتخابات نہیں چاہتے بلکہ پی ٹی آئی ماضی کی طرح پیرا شوٹ کے ذریعے آنا چاہتی ہے ۔ پیپلز پارٹی اپنے اختیارات کے ذریعے کنٹرول چاہتی ہے اور ایڈ منسٹریٹر کا تقرر بھی اس کے مفاد میں ہے ۔ حکومت سندھ کا آدمی ہو گا مدت میں جتنی چاہیں توسیع کرتے رہیں ۔ اسباب تو پیدا ہو ہی جاتے ہیں ۔ لیکن مسئلے کا حل شفاف انتخابات ہی ہیں ۔ اس کے بغیر کراچی پر گدھ منڈلاتے رہیں گے ۔