امارات اسرائیل معاہدہ

350

گزشتہ جمعرات کو اچانک سامنے آنے والے اس بیان کہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان امن معاہدہ طے پا گیا ہے نے پوری دنیا کو بالعموم اور عالم اسلام کو بالخصوص ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے ایک ٹویٹ کے ذریعے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین متذکرہ مفاہمت کو ایک بہت بڑی پیش رفت قرار دیتے ہوئے اسے امریکا کے دو عظیم دوستوں کے مابین تاریخی امن معاہدے سے تعبیر کیا ہے۔ دوسری جانب واشنگٹن میں متعین متحدہ عرب امارات کے سفیر نے اس معاہدے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اعلان ڈپلومیسی اور خطے کی جیت ہے۔ بعد ازاں ایک مشترکہ بیان میں ٹرمپ، اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور ابوظہبی کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زید النہیان نے اس بات کی تصدیق کی کہ انہوں نے جمعرات کے روز بات چیت کی ہے اور اسرائیل اور عرب امارات کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے پر اتفاق کیا ہے۔ اس امن معاہدے کے حوالے سے اب تک میڈیا میں یہی تاثر دیا جاتا رہا ہے کہ غرب اردن پر فلسطین کا حق ملکیت تسلیم کیے جانے کے علاوہ یہاں سے یہودی آبادکاروں کی بے دخلی اس معاہدے کا اہم حصہ ہے لیکن یہاں یہ امر حیران کن ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نہ صرف ایسی کسی شرط کو مسترد کر چکے ہیں بلکہ انہوں واضح الفاظ میں یہ اعلان بھی کیا ہے کہ اسرائیل غرب اردن میں یہودیوں کی آبادکاری کے اپنے منصوبے پر عمل درآمد پہلے کی طرح جاری رکھے گا اور یہ کہ یو اے ای اسرائیل کے متذکرہ معاہدے میں ایسی کوئی شق موجود نہیں ہے جو اسرائیل کو غرب اردن میں یہودی بستیاں بسانے سے روکتی ہو۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے اس متنازع بیان سے جہاں وہ بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے جس کا خدشہ فلسطینیوں اور فلسطین کی مکمل آزادی پر یقین رکھنے والی قوتوں کی طرف سے اب تک کیا جاتا رہا ہے وہاں اسرائیل کے ماضی اور مستقبل کے عزائم کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی پرلے درجے کا بے وقوف ہی مشرق وسطیٰ میں پائیدار اور مستقل امن کے قیام کے اسرائیلی دعوئوں پر یقین کرے گا۔
اسرائیلی عزائم کا بھانڈا ایک سینئر اسرائیلی عہدے دار نے گزشتہ روز یہ کہہ کر پھوڑا ہے کہ مغربی کنارے کے علاقوں پر اسرائیلی خودمختاری کا اطلاق ابھی بھی نیتن یاہو حکومت کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ اس اہلکارکا کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے ان سے غرب اردن کی خودمختاری کے اعلان کو عارضی طور پر معطل کرنے کے لیے کہا ہے تاکہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ تاریخی امن معاہدے پر عمل درآمد ہو سکے۔ دوسری جانب اسرائیل یو اے ای معاہدے کا دفاع کرتے ہوئے عرب امارات کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ نے فلسطینیوں کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا معاہدہ ایک جرأت مندانہ اقدام ہے تاکہ طویل عرصے سے جاری اسرائیل فلسطین تنازعے کے دو ریاستی حل کو حاصل کیا جاسکے۔ افسوس اس بات پر ہے کہ زیر بحث معاہدے میں آخر ایسا کون سا الہ دین کا چراغ ہے جسے رگڑتے ہی اسرائیل فلسطینیوں کو آزادی دینے پر مجبور ہوجائے گا۔ اس تلخ حقیقت سے بھی ہر کوئی واقف ہے کہ یو اے ای اسرائیل معاہدے کا زیادہ فائدہ تو یقینا اسرائیل ہی کو ہوگا۔ عین ممکن ہے کہ یو اے ای کو بھی اس سے کوئی عارضی اقتصادی فائدہ پہنچ جائے لیکن یہ بات تو طے ہے کہ اس سے کم از کم فلسطینیوں کو کچھ فائدہ پہنچنے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔
ایک انٹرویو میں اسرائیل میں امریکی سفیر ڈیوڈ فریڈمین نے اس معاہدے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جو جو عرب ممالک اسرائیل کے دوست اور شراکت دار بنتے جائیں گے وہ ریاستیں امریکا کے علاقائی اتحادی بھی بنتے جائیں گے، انہوں نے کہا کہ اس امن معاہدے سے مستقبل میں امارات کو امریکی اسلحے کی فروخت کے بند دروازے بھی کھل جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ اسرائیل کے ساتھ دوستی کے معاہدے کے بعد عرب امارات امریکی اسلحہ کے ڈھیر خرید کر اس کا کرے گا کیا، اس سوال کا آسان جواب یہ ہے کہ اس اسلحے سے جہاں امریکی کمپنیوں کو اربوں ڈالر کا فائدہ ہوگا اور انہیں اپنے اسلحے کی کھپت کی ایک نئی مارکیٹ دستیاب ہو گی وہاں کل کو یہی اسلحہ ایک مسلمان ملک دوسرے مسلمان ملک کے خلاف استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرے گا اس طرح امریکا اور اسرائیل ایک تیر سے باآسانی دو شکار کرسکیں گے، عراق اور شام کی پراکسی جنگوں کے علاوہ یمن اور لیبیا میں بعض مسلمان ملکوں کی کھلی جارحیت اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ عرب امارات کے بعد بحرین اور اومان بھی اسرائیل سے دوطرفہ تعلقات استوار کرنے کے لیے قطار میں ہاتھ باندھے کھڑے ہیں جب کہ اب تو سوڈان جسے کچھ عرصہ پہلے تک اسرائیل کا خطے میں ایک بڑا نظریاتی دشمن سمجھا جاتا تھا کے ساتھ بھی دوستی کی پینگیں بڑھنے کی اطلاعات منظر عام پر آ چکی ہیں جس سے مشرق وسطیٰ کا سیاسی نقشہ تبدیل ہوتا ہو انظر آ رہا ہے۔ لہٰذا کچھ عرصے بعد جب حیران کن طور پر ساری عرب دنیا اسرائیل کیمپ میں کھڑی نظر آئے گی تو ایسے میں پاکستان کہاں کھڑا ہوگا، دراصل یہ وہ سوال ہے جو عرب امارات اسرائیل امن معاہدے کے بعد ہر پاکستانی کے قلب ودماغ میں بری طرح کلبلا رہا ہے۔ اس معاہدے پر ہماری وزارت خارجہ کی جانب سے جو مبہم اور غیر واضح بیان سامنے آیا ہے اس نے رہی سہی کسر پوری کرتے ہوئے پوری قوم کو مزید تشویش اور پریشانی میں مبتلا کردیا ہے، امید ہے کہ حکومت قوم کی اس تشویش کا نہ صرف بروقت ادراک کرے گی بلکہ ایک واضح اور دوٹوک موقف کے ذریعے قوم کے احساسات اور امنگوں کی ترجمانی کا حق بھی ادا کرے گی۔