کچھ ٹیلی فون کالز

370

کیا کریں یاد ہی نہیں رہا۔ تاخیر سے سہی بہرحال، چائنا باجا بنانے والوں، امپورٹ کرنے والوں اور اس سے پاں پاں کرنے والوں کے سوا سب کو 14اگست مبارک۔ گمان ہے کہ اس دن ہمیں آزادی ملی تھی۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس دن ہم برطانیہ کے چھوٹے پنجرے سے نکل کر امریکا کے بڑے پنجرے میں داخل کردیے گئے تھے جہاں ہمیں ہاتھ پائوں پھیلانے کی زیادہ آزادی حاصل ہے۔ یہ مایوس لوگوں کی باتیں ہیں ورنہ سوچیے امریکا نہ ہوتا تو ہمارے لیے حکمران کون منتخب کرتا۔ اسی دن آئی ایس پی آر نے ایک گانا بھی ریلیز کیا تھا ’’جا چھوڑ دے میری وادی‘‘ اس کی بھی الگ سے مبارک باد وصول کیجیے۔ مزاح انسان کی ایک بڑی خوبی ہے۔ ہماری فوج اس پر یقین رکھتی ہے۔ سنا ہے اسی دن خاور مانیکا کے پوتے نے بھی ایک گانا ریلیز کیا ہے ’’جا چھوڑ دے میری دادی‘‘۔
ایک کہاوت ہے ’’آلو بکیں یا نہ بکیں گدھے نے شہر تو دیکھ لیا‘‘۔ کچھ لوگ اسے عمران خان پر چسپاں کردیتے ہیں کہ ملک چلا، یا نہیں چلا عمران خان نے وزارت عظمیٰ کے مزے تو لوٹ لیے۔ دو تین ما ہ پہلے عمران خان نے کہا تھا کہ انہیں چھ ماہ کی مہلت ملی ہے لیکن پھر خبریں آنے لگیں کہ آلو بکیں یا نہ بکیں گدھا تبدیل نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سابق فاسٹ بولر شعیب اختر کے اس بیان کے بعد کہ ’’اللہ نے کبھی اختیار دیا تو خود گھاس کھالوںگا مگر فوج کا بجٹ بڑھائوں گا‘‘۔ ہم سمجھے تھے کہ شاید اگلے گدھے کا انتخاب کر لیا گیا ہے۔ مہلت ملنے کے خیال کو عمران خان کے اس بیان سے تقویت ملی کہ میں نے ساری کشتیاں جلادی ہیں اب پیچھے مڑکر نہیں دیکھنا حالانکہ انہیں کشتیاں نہیں اپنی پرانی تقریریں جلانی چاہیے تھیں تاکہ لوگ ان کے وعدے اور دعوے بھول سکیں۔
کبھی اپوزیشن 14اگست والے باجے کی مثل ہوتی تھی۔ شور سے کان کے پردے پھاڑ دینے والی۔ پاکستان اگر چہ سیاست دانوں نے بنایا تھا لیکن ایوب خان تک آتے آتے ہمارے جوانوں کو یہ احساس ہوا کہ سیاست دان تو سب غدار اور بد معاش ہوتے ہیں۔ وطن کی محبت کا تقاضا تھا کہ سیاست دانوں پر پابندیاں عائد کی جائیں، سزائوں اور جھوٹے سچے ہتھکنڈوں سے ان کی زندگی اجیرن کردی جائے۔ اس سوچ کا نتیجہ تھا کہ سیاست دانوں پر چار خودکش حملے کیے گئے لیکن وہ پھر بھی قابو میں نہیں آئے۔ نجانے یہ کس کے ذہن رسا کی پیداوار تھی جس نے پرویز مشرف کو نیب کی ترکیب سجھائی۔ نیب کے قیام سے تمام سول اور فوجی آمروں کے اس خواب کو تعبیر ملی کہ اپوزیشن کے باجے میں کرپشن کی اتنی بجری بھر دی جائے کہ باجا نہ صرف بے آواز ہو جائے بلکہ سب تھو تھو کریں۔ اب کسی آمر کو اپوزیشن کو یہ دھونس اور دھمکی دینے کی ضرورت نہیں رہی کہ میں تمہیں وہاں سے ہٹ کروں گا کہ تمہیں پتا بھی نہیں چلے گا۔ بھٹو خاندان ہو شریف خاندان یا پھر ان کے ریزے چننے والے سب کرپشن کی زد میں ایسے آئے کہ لوگ حیران اتنی کرپشن، اتنا کالا دھن۔
خلائی مخلوق کے پیدا کردہ نفاق، جوڑ توڑ اور نیب کی جادوگری نے اپوزیشن کو ایسا گوشہ تنہائی میں بٹھایا، ان کی سیاست کی ایسی تالا بندی کی کہ اپوزیشن ’’ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے‘‘ کی مثل ہوگئی۔ یکطرفہ کاروائیوں پر نیب پر چاروں طرف سے تنقید ہونے لگی تو گزشتہ دنوں نیب میں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی پیشی بھی لگوادی گئی۔ تاہم ٹارزن کا ہدف مریم نواز تھی۔ نیب نے مریم نواز کو اس زمین پر تفتیش کے بارے میں طلب کیا تھا جو ان کے دادا نے انہیں تحفے میں دی تھی۔ نیب پیشی کے موقع پر مریم نواز کا اصرار تھا کہ انہیں سنا جائے لیکن نیب کا کہنا تھا کہ مریم واپس جائیں اور اگلی پیشی کا انتظار کریں۔ اس موقع پر مریم نے خاموشی توڑ کر جس دلیری سے نیب اور مخالفین کو للکارا اس نے منظر نامہ تبدیل کرکے رکھ دیا۔ مریم کی پیشی نے اپوزیشن کے مردے میں جان ڈال دی۔ مریم کی اس حرکت کے بعد اسلام آباد والے تو سر جوڑ کر بیٹھے اس کمپنی کے مالکان کی بھی نیندیں حرام ہو گئیں جن کی بنائی ہوئی بلٹ پروف میں مریم سفر کررہی تھیں جب انہیں یہاں سے یہ اطلاع دی گئی کہ پاکستان میں ایسے پتھر دریافت کر لیے گئے ہیںجو بلٹ پروف گاڑی کا شیشہ توڑ سکتے ہیں۔ ہم بھی تنخواہ ملنے پر ایک بلٹ پروف گاڑی لینے کا سوچ رہے تھے۔ اب جب بھی خریدیں گے پہلے پتھر مار کر چیک کرلیں گے۔
ایک بلٹ پروف شیشے کی بھلا اوقات کیا
کس طرح پتھر سے ونڈ اسکرین ٹوٹی شک نہ کر
نواز شریف جب پاکستان میں تھے کثرت استعمال سے ان کے موبائل فون کی بیٹری بار بار چارج کرنا پڑتی تھی۔ جب سے پلیٹ لیٹس انہیں لندن لے گئے ان کے موبائل کی بیٹری فل رہنے لگی تھی۔ مریم کی پیشی کے موقع پر وہ پھر سے گرم ہوگئی۔ میاں صاحب مریم سے بھی رابطے میں تھے اور ان کے پارٹی کے خوشہ چین بھی دھڑادھڑ انہیں کال کررہے تھے۔ کچھ کالیں خفیہ طریقے سے ہم نے بھی سن لیں۔ ایک کال میں نواز شریف مریم سے مخاطب ہوکر کہہ رہے تھے ’’میری بہادر بیٹی آج تم نے ظالموں کو بتادیا کہ اب ہم خاموش نہیں رہیں گے۔ عمران خان کی حکومت کا گھروندہ ہماری حکومت کو سازش کے ذریعے گرا کر اس کے کچرے پر تعمیر کیا گیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ میرے لندن چلے آنے اور خاموش رہنے کے بعد وہ تمہیں نیب میں طلب نہیں کریں گے لیکن تم نے ان کی سازش کا منہ پھیر دیا۔ اگر تم اپنے بیان میں۔ اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی۔ جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتا ہی۔ پڑھ دیتیں تو بات اور بھی موثر ہوجاتی۔ بہتر ہے تم بھی اقبال کے دوچار شعر رٹ لو لیکن دیکھو بھولے سے بھی حبیب جالب کے شعر مت پڑھنا ورنہ شہباز شریف کی طرح تمہیں بھی حبیب جالب کی آہ لگ جائے گی۔ میں نے اپنی پارٹی کے دیگر سیاست دانوں اور ورکرز کو پیغام بھیج دیا ہے کہ وہ عورتوں سے بہادری کا سبق سیکھیں‘‘۔ نوازشریف ابھی مریم سے بات کرہی رہے تھے کہ پاکستان سے ایک کال آگئی۔ نواز شریف پہچان نہ سکے۔ انہوں نے پوچھا ’’کون‘‘ جواب آیا ’’میاں صاحب میں آصفہ بول رہی ہوں، خواجہ آصفہ، آج ہماری بہن مریم نواز شر یف صاحبہ جو ہیں انہوں نے ہم سب بہنوں کا سر جو ہے وہ فخر سے بلند کردیا ہے۔ میں اس جدوجہد میں جو ہے اپنی بہن کے ساتھ ہوں۔ مریم نواز نے
جس طرح نوٹَس کو ریزسٹ کیا ہے اس نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ ہمیں ایسی بہنوں سے جو ہے ہمت لینی چا ہیے‘‘۔ یہ کال ختم ہی ہوئی تھی کہ ایک اور کال آگئی ’’میاں صاحب میں رانی ثنا اللہ بات کررہی ہوں۔ میاں صاحب شکر ہے انہوں نے مریم بہن کی گاڑی سے پتھر برآمد کیے۔ ورنہ آپ کی اس بہن کی گاڑی سے تو ہیروئن برآمد کی تھی۔ ان سے کچھ بعید نہیں کہ مریم نواز صاحبہ پر الزام لگا دیتے کہ انہوں نے نیب آفس پر راکٹ فائر کیے یا ایف سولہ سے بمباری کی۔ وہ چاہتے تو ان کی گاڑی سے پائو پائو بھر کے کئی ایٹم بم برآمد کرسکتے تھے۔ میاں صاحب ہم اپنی بہن کا معاملہ عدالت عظمیٰ لے کر جائیں گے‘‘۔ اگلی کال سعیدہ رفیق تھی ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ میاں صاحب ہم آپ کی بہنیں کبھی سرنڈر نہیں کریں گی۔ اس طرح گریبان پکڑ کر اور کنپٹی پر پستول رکھ کراپوزیشن کو ساتھ نہیں چلایا جاسکتا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم خواتین کے خلاف یہ آمرانہ اقدامات بھی کریں اور ہم سے تعاون بھی طلب کریں۔ جو ان کے پلے ہے ہمیں وہ بھی پتا ہے جو ہمارے پلے ہے ہمیں وہ بھی پتا ہے‘‘۔ بات جاری ہی تھی کہ ایک اور کال آگئی ’’میاں صاحب میں پرویز رشیدہ بات کررہی ہوں۔ ہماری بہن مریم نواز لاوارث نہیں ہے۔ وہ پھر بلا کر دیکھ لیں مریم اس سے زیادہ لوگ لے کر پہنچیں گی۔ ووٹ کو عزت دو کے معاملے میں وہ جب بھی ہمیں آواز دیں گی ہم بہنوں کو آواز پہنچ گئی تو ہم بھی اپنی بہن کے ساتھ کھڑی ہوں گی‘‘۔ بات یہیں تک پہنچی تھی کہ میاں صاحب کے موبائل کی چارجنگ ختم ہوگئی۔ انہوں نے بیزاری سے اسے ایک طرف رکھ دیا۔ دوبارہ چارج بھی نہیں کیا۔