کینجھر جھیل میں اندوہناک سانحہ

269

کینجھر جھیل میں پکنک کے لیے جانے والے کراچی کے ایک ہی خاندان کے 10 افراد جاں بحق ہوگئے۔ یہ تمام لوگ نوری جام تماچی کے مزار جارہے تھے۔ تیز ہوائوں کی وجہ سے کشتی الٹ گئی۔ تین خواتین ڈوبنے سے بچ گئیں۔ انتظامیہ نے 10 افراد کی جان جانے کے بعد جھیل میں کشتی چلانے پر پابندی لگادی ہے۔ ملاح کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ کشتی میں گنجائش سے زیادہ افراد کو بٹھایا گیا تھا۔ یقینا یہ ایک حادثہ تھا اور اس کے نتیجے میں ہلاکتیں ہوگئیں لیکن ایسے حادثات سے بچا بھی جاسکتا ہے۔ کینجھر جھیل میں پہلے بھی کشتیاں ڈوبتی رہی ہیں اور اس کا سبب گنجائش سے زیادہ افراد کو بٹھانا ہی رہا ہے۔ تیز ہوا تو اس کشتی کا توازن مزید خراب کرنے کا سبب بنی ہوگی۔ اگر انتظامیہ ہر حادثے کے بعد پابندی لگانے کے بجائے کشتی کی روانگی کے وقت اس بات کو یقینی بنائے کہ کشتی میں کتنی سواریاں جارہی ہیں اور مقررہ تعداد اور ضرورت سے زیادہ وزن کو کشتی میں سوار ہی نہ ہونے دیا جائے تو حادثات کی روک تھام ہوسکتی ہے۔ ملاح کو گرفتار تو کرلیا گیا ہے لیکن کشتی کے مالکان اور کینجھر جھیل کی انتظامیہ سے بھی تو بازپرس ہونی چاہیے کہ ایسا نظام کیوں رکھا گیا ہے۔ ملاح نے اپنی مرضی سے زیادہ سواریاں نہیں بٹھائی ہوں گی۔ کشتی کے مالکان کو زیادہ رقم ملتی ہے ایک چکر میں زیادہ رقم کے لالچ میں یہ لوگ انسانی جانوں کو دائو پر لگادیتے ہیں۔ اس حادثے کے ساتھ ہی ایک اور تضاد سامنے آیا ہے۔ حکومت نے تفریح گاہیں کھول دی ہیں، مزارات کھول دیے ہیں جس کے نتیجے میں لوگ تفریح اور پکنک کے لیے نکل کھڑے ہوئے ہیں اور یہ حادثہ بھی اسی اجازت کی وجہ سے پیش آیا۔ یقینی طور پر حکومت کے اعلان کردہ ایس او پیز پر عمل بھی نہیں ہورہا ہوگا۔ کشتی میں فاصلے سے بیٹھنے کا مطلب مقررہ تعداد سے کم لوگوں کو بٹھانا ہوتا لیکن کشتی میں تو مقررہ تعداد سے زیادہ لوگ تھے۔ تضاد یہ ہے کہ حکومت نے پارک، مزارات، شاپنگ مالز وغیرہ سب کھول دیے ہیں بس اسکول نہیں کھولے ہیں جب کہ اسکولز ان تمام مقامات کے مقابلے میں وہ بہترین جگہ ہے جہاں حکومت کے بتائے ہوئے تمام ایس او پیز پر پوری طرح عمل ہوجاتا۔ اسکول میں تو سکھایا ہی ڈسپلن جاتا ہے، اساتذہ اور انتظامیہ بچوں کو فاصلہ رکھنا، ماسک پہننا، سینی ٹائزر سے ہاتھ صاف کرنا وغیرہ سب سکھا دیتے۔ اس عالمی وبا کے پیچھے جو ایجنڈا تھا اس کا تو نشانہ ہی تعلیم، کاروبار اور مذہب تھا۔ ان تینوں ہی کو نقصان پہچایا گیا ہے۔ جتنے لوگوں کو مرنا تھا مرگئے حالانکہ کشتی الٹنے سے بھی مر جاتے ہیں اور تودہ گرنے یا بارش میں کرنٹ لگنے سے بھی لوگ مرجاتے ہیں۔ اب حکومت کا اصرار ہے کہ کچھ بھی ہوجائے ستمبر میں بتائیں گے کہ اسکول کھولنے ہیں یا نہیں۔ ایسا کیوں ہورہا ہے۔ کیا یہ الزام تسلیم کرلیا جائے کہ اسکول کھولنے کے لیے مالکان سے بھاری رقم طلب کی گئی ہے جو وہ ایڈوانس میں دینے پر تیار نہیں اس لیے اسکول کھولنے اور تدریس پر جرمانے اور دھمکیاں دی جاتی ہے باقی سب جگہ کھلا کھاتا ہے۔