منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

338

14 اگست کو پوری قوم نے یوم آزادیٔ پاکستان پورے جوش و خروش سے منایا۔ سرکاری عمارتوں اور مکانوں پر قومی پرچم لہرائے گئے۔ نوجوان موٹر سائیکلوں پر پرچم اُٹھائے سڑکوں پر جشن آزادی مناتے رہے۔ کہیں کہیں جلوس اور ریلیاں بھی نکالی گئیں۔ رات کو چراغاں کیا گیا۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں نے بیانات بھی دیے لیکن کہیں سے یہ آواز نہیں اُٹھی کہ ہم وہ پاکستان تو گُم کر بیٹھے ہیں جو ہم نے 14 اگست 1947ء کو بے مثال قربانیوں کے بعد حاصل کیا تھا۔ اُس وقت پاکستان کا وجود مشرق و مغرب میں پھیلا ہوا تھا۔ اسے دُنیا کی عظیم اسلامی مملکت کی حیثیت حاصل تھی لیکن اپنی نالائقیوں کے سبب ہم پاکستان کے مشرقی حصے میں بھی ایک قوم کے بجائے قومیتوں اور لسانی عصبیتوں کی گونج سنائی دینے لگی۔
واقعہ یہ ہے کہ پاکستان جس مقصد کے لیے حاصل کیا گیا تھا اور جس کے لیے برصغیر کے اُن مسلمانوں نے بھی اپنی جانیں قربان کی تھیں جو خوب جانتے تھے کہ پاکستان بنا تو وہ اس میں شامل نہیں ہوں گے۔ اس کے باوجود انہوں نے پاکستان کی جنگ بے جگری سے لڑی اور پاکستان بنا کر دم لیا۔ برصغیر کے تمام مسلمانوں کی واحد خواہش یہ تھی کہ اس خطے میں ایک ایسا ملک وجود میں آئے جس میں اسلام کی حکمرانی ہو، قرآن و سنت کی فرمانروائی ہو، جہاں اسلامی عدل و انصاف کا بول بالا ہو اور جہاں ظلم و ناانصافی کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ ایسا پاکستان اُن مسلمانوں کے لیے بھی بڑی قوت بن سکتا تھا جو اس کا حصہ بننے سے رہ گئے تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں مسلم لیگ نے پاکستان تو حاصل کرلیا تھا لیکن پاکستان کو اسلامی فلاحی مملکت بنانے کا خواب ابھی باقی تھا۔ قائد اعظم کی زِندگی نے وفا نہ کی کہ وہ اس خواب کو اپنی آنکھوں کے سامنے پورا ہوتے دیکھتے۔ ان کی آنکھ بند ہوتے ہی یہ خواب بکھر گیا۔ مسلم لیگ کی باقی ماندہ قیادت اس خواب سے عاری تھی اسے اس بات کا شعور ہی نہ تھا کہ پاکستان کو کن بنیادوں پر استوار کرنا ہے۔ ایسے میں سیکولر، نام نہاد لبرل اور کمیونسٹ عناصر نے انگریزوں کی پروردہ بیوروکریسی کے ساتھ مل کر پاکستان کو پٹڑی سے اُتارنے کی پوری کوشش کی اور اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی رہے کہ حکومت کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں تھی۔ اقتدار و اختیار ان کے پاس تھا اور وہ بہت کچھ کرسکتے تھے لیکن تاریخ کی گواہی یہ ہے کہ صرف ایک طاقت نے ان کی شدید مزاحمت کی اور وہ طاقت تھی جماعت اسلامی کی۔ جماعت اسلامی اور اس کے قائد سید مودودیؒ کو بخوبی اس بات کا اندازہ تھا کہ مسلم لیگ برصغیر کے مسلمانوں کی پُرجوش حمایت اور قربانیوں کے طفیل پاکستان تو حاصل کرلے گی لیکن اسے ایک اسلامی فلاحی مملکت کا روپ نہیں دے پائے گی۔ چناں چہ جماعت اسلامی نے اوّل روز سے اس بات کی کوشش کی کہ پاکستان کو اس کے بنیادی مقصد سے ہم آہنگ رکھا جائے، جب تک قائد اعظم زندہ رہے اسے اس سلسلے میں کوئی دشواری پیش نہ آئی۔ سیّد مودودی قائداعظم کے حلیف کی حیثیت سے پاکستان کی حقیقی منزل کی طرف پیش رفت کرتے رہے۔ انہوں نے ریڈیو پاکستان کے ذریعے کہ وہ اُس وقت ابلاغ کا سب سے موثر ہتھیار تھا، اسلام کے سیاسی، اخلاقی اور معاشرتی نظام پر سیر حاصل خطاب کیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ملک گیر دورہ کرکے عوام کو اس بات کا احساس دلایا کہ وہ اس وقت امتحان گاہ میں کھڑے ہیں اور ’’پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ‘‘ کا جو نعرہ انہوں نے بلند کیا تھا پاکستان اب ان سے پوچھ رہا ہے کہ وہ اس نعرے میں کس حد تک سچے تھے۔ سید مودودیؒ نے پورے ملک کے
عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان کی نگاہوں کے سامنے اس ملک میں غیر اسلامی نظام نافذ ہوگیا تو ہم سب اللہ کی عدالت میں پکڑے جائیں گے اور وہاں کوئی شنوائی نہیں ہوگی۔ جب تک قائد اعظم زندہ رہے حکومت میں موجود لادین عناصر سید مودودی کی یہ باتیں برداشت کرتے رہے لیکن ان کی آنکھ بند ہوتے ہی جماعت اسلامی اور اس کے امیر کے خلاف توپوں کے دہانے کھل گئے اور حکومت پوری قوت کے ساتھ جماعت اسلامی پر حملہ آور ہوگئی۔ 4 اکتوبر 1948ء کو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور میاں طیفل محمد کو لاہور سے اور مولانا امین احسن اصلاحی کو راولپنڈی سے گرفتار کرلیا گیا، جب کہ جماعت اسلامی کے ترجمان اخبارات و جرائد روزنامہ تسنیم اور سہ روزہ کوثر پر حکومت پہلے ہی ہاتھ ڈال چکی تھی۔ جماعت اور اس کے قائدین کا ’’جرم‘‘ صرف اور صرف یہ تھا کہ وہ پاکستان میں نفاذِ اسلام کا مطالبہ کررہے تھے انہیں حکومت و اقتدار کی کوئی خواہش نہ تھی۔ وہ حکمرانوں کے حریف نہیں بلکہ ان کے حلیف بن کر ایک اسلامی فلاحی مملکت کے قیام میں ان کی مدد کرنا چاہتے تھے۔ لیکن ملک پر قابض حکمران طبقے کی یہ منزل ہی نہ تھی وہ تو پاکستان کو کسی اور راستے پر لے جانا چاہتا تھا۔
گرفتاریوں اور بندشوں کے باوجود مطالبہ نظام اسلامی کی تحریک نہ رُک سکی اور پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کو وہ قراردادِ مقاصد منظور کرنا پڑی جس کے مسودے کی نوک پلک سیّد مودودی نے جیل میں درست کی تھی اور جس میں یہ بات طے کردی گئی تھی کہ پاکستان میں حاکمیت اللہ کی ہوگی اور حکمران اس کی نیابت کا فریضہ انجام دیتے ہوئے حکومت کا پورا نظام اسلامی شریعت کے مطابق چلائیں گے۔ دستور ساز اسمبلی سے قراردادِ مقاصد کی منظوری بظاہر جماعت اسلامی اور دینی قوتوں کی بہت بڑی کامیابی تھی اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس محاذ آرائی کا خاتمہ ہوگیا ہے جو لادین عناصر اور جماعت اسلامی کے درمیان برپا تھی لیکن افسوس ایسا نہ ہوسکا۔ سید مودودی اور ان کے رفقا ایک عدالتی فیصلے کے نتیجے میں بیس ماہ بعد 28 مئی 1950ء کو رہا ہوگئے تو ان کے رہا ہوتے ہی ملک کو ایک نئے بحران سے دوچار کردیا گیا۔ یہ بحران تھا قادیانیت کے خلاف تحریک کا۔ یہ تحریک اچانک اس وقت برپا کی گئی جب ملک قراردادِ مقاصد کی منظوری کے بعد آئین سازی کے مرحلے میں داخل ہورہا تھا اور اس بات کی توقع کی جارہی تھی کہ ایک اسلامی جمہوری آئین کی تشکیل کے بعد ملک میں عام انتخابات ممکن ہوسکیں گے لیکن اس سارے عمل کو روکنے کے لیے قادیانیت کے خلاف ایجی ٹیشن شروع کردیا گیا۔ جماعت اسلامی اس ایجی ٹیشن کے خلاف تھی اس کا موقف تھا کہ اس طرح ملک افراتفری کا شکار ہوجائے گا اور دستوری جدوجہد کو شدید نقصان پہنچے گا۔ تاہم اس موقع پر سید مودودی نے ’’قادیانی مسئلہ‘‘ لکھ کر اس فتنے کا علمی و تحقیقی بنیادوں پر ابطال کیا۔ اس کتابچے کی بڑے پیمانے پر اشاعت کی گئی لیکن جو عناصر ملک میں افراتفری پیدا کرنا چاہتے تھے وہ اپنے کام میں مصروف رہے، یہاں تک کہ لاہور میں مارشل لا نافذ کردیا گیا۔ مارشل لا نافذ ہوتے ہی مرکز جماعت پر چھاپا مار کر امیر جماعت اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودی کو گرفتار کرلیا گیا، حالاں کہ قادیانیت کے خلاف احتجاجی تحریک میں ان کا کوئی عمل دخل نہ تھا۔ انہوں نے ’’قادیانی مسئلہ‘‘ ضرور لکھا تھا لیکن وہ کسی اعتبار سے بھی خلافِ ضابطہ یا خلاف قانون نہ تھا۔ اردو، انگریزی اور بنگالی میں اس کی مسلسل اشاعت جاری تھی، اسے نہ ضبط کیا گیا تھا نہ اس پر پابندی لگائی گئی تھی لیکن ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ فوجی عدالت نے یہ کتابچہ لکھنے کے ’’جرم‘‘ میں سید مودودیؒ کو سزائے موت کا حکم سنا دیا تھا۔ لیکن عالم اسلام کے شدید احتجاج کے نتیجے میں حکومت کے پس پردہ عناصر اس سزا پر عملدرآمد کا حوصلہ نہ کرسکے۔
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ جب سول حکومتیں مطالبہ نظام اسلامی کی لہر کو دبانے میں ناکام رہیں اور شدید رکاوٹوں کے باوجود 1956ء میں ایک اسلامی جمہوری آئین بھی تشکیل پا گیا اور اس کے تحت پہلے عام انتخابات کی تاریخ بھی طے پاگئی تو فوجی حکومت آگئی اور ملک میں مارشل لا لگا کر سارے دستوری عمل پر پانی پھیر دیا گیا۔ فوجی حکومت نے جماعت اسلامی پر پابندی لگا کر اسلامی نظام کا قصہ ہی پاک کرنے کی کوشش کی لیکن اسے بھی منہ کی کھانی پڑی۔
جماعت اسلامی آج بھی میدان عمل میں موجود ہے اور لادین عناصر کا ڈٹ کر مقابلہ کررہی ہے، البتہ یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ جن قوتوں نے ابتدا میں پاکستان پر قبضہ کیا تھا ان کی ذرّیات آج بھی اقتدار و اختیار کے مزے لوٹ رہی ہیں اور موجودہ صورتِ حال پر شاعر کا یہ مصرع صادق آتا ہے۔
منزل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے