قاضی شہر سے بھی کوئی پوچھے ذرا

248

سرکلر ریلوے کی بحالی، نالوں کی صفائی اور اس پر قائم تجاوزات ہٹانا، دکانوں اور شاپنگ مالز کے سامنے لگے ٹھیلوں پتھاروں کا خاتمہ اور دکانوں کے آگے لگے چھجوں کو ہٹانا یہ اور اس طرح کے بے شمار حکم نامے عدالت کی انتظامیہ کو سخت تنبیہ اور ماضی میں آج جیسے دھواں دار ریمارکس کے باوجود اب بھی قائم ہیں منصف اعلیٰ اور دیگر جج صاحبان کو اپنے ریمارکس کی پاسداری اور سبکی سے بچنے کے لیے ایک جائزہ کمیٹی بھی بنانی چاہیے جو ان کے حکم ناموں پر عملدرامد کی صورتحال سے گاہے گاہے انہیں آگاہ کرتی رہا کرے ورنہ ہر سال انہیں دنوں میں ہم اپنے بھولے سبق کو دہراتے اور کچھ ڈانٹ ڈپٹ کے بعد پھر سے نیا ہوم ورک دے کر لمبی تان لیا کریں گے۔ ذیل میں ہم اعلیٰ عدلیہ کے ایسے ہی حکم ناموں پر عملدرامد کا ایک جائزہ رکھ رہے ہیں جس کے نتیجے میں امراء اور فیوڈل کلاس کا تو کچھ نہ بگڑا مگر ہمیشہ کی طرح غریب مارا گیا۔
مئی 2019 میں عدالت عظمیٰ نے کراچی سرکلر ریلوے کو ایک ماہ میں فعال کرنے کا حکم دیتے ہوئے سیکرٹری ریلوے کو ریلوے اراضی دو ہفتوں میں واگزار کرانے کا حکم دیا، جو ایک نا ممکن عمل تھا دوران سماعت عدالت کے استفسار پر جب یہ بتایا گیا کہ قابضین سے 39 ایکڑ زمین سے ابھی صرف 10 ایکڑ خالی کرائی جاسکی ہے لہٰذا کچھ مہلت دی جائے اس پر جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ ریلوے کی زمین خالی کرانے کے لیے دو ہفتوں سے زیادہ کی مہلت نہیں دی جاسکتی۔
نالوں کے صفائی اور شہر بھر سے تجاوزات کے خاتمے کا حکم دیتے ہوئے گزشتہ سال عدالت نے تجاوزات ختم کرانے کا کام وزیر اعلیٰ سندھ کو سونپتے ہوئے حکم دیا کہ مراد علی شاہ تمام اداروں کے ساتھ مل کر ان مسائل کا حل نکالیں عدالت نے صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی کی ایک تقریر پر انہیں توہین عدالت کا نوٹس بھی جاری کیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ غیر قانونی تجاوزات کی زد میں آنے والے رہائشی مکانات، فلیٹس اور عمارتیں منہدم کرنے کو ایک انسانی مسئلہ قرار دیتے ہوئے عدالت سے نظر ثانی کی اپیل کرتے ہیں اس موقع پر میئر کراچی وسیم اختر نے اپنی بے بسی کا رونا روتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ بحیثیت میئر ان کے پاس اختیارات نہ ہونے کہ برابر ہیں اور نئے بلدیاتی نظام کے تحت اکثر اختیارات محکمہ بلدیات کو سونپے جا چکے ہیں جس پر عدالت نے ان کی سرزنش کرتے ہوئے حکم دیا کہ شہر کو اپنی اصل شکل میں بحال کریں اور عمل درآمد رپورٹ پیش کی جائے، عدالت نے اس مقصد کے لیے شہر بھر کے فٹ پاتھوں سے تعمیرات ختم کرانے، رفاعی اداروں کے دسترخوان یا شیڈز فوری ختم کرانے اور اسپتالوں کے سامنے خالی پلاٹس کا ایمبولینس کے لیے استعمال روکنے کی بھی ہدایت کی۔ عدالت نے وسیم اختر کو اس بات کا ذمے دار ٹھیرایا کہ بلدیاتی اداروں کے ملازمین شہریوں کی بھلائی کے بجائے ذاتی مفادات کے لیے کام کر رہے ہیں شہر میں پارکس کھیل کے میدان رفاعی پلاٹس حتی کہ قبرستانوں تک کی زمینوں پر قبضے کر لیے گئے ہیں، درخت لگانے کے بجائے کاٹے جا رہے ہیں، اسکولوں کی کوئی دیکھ بھال نہیں ہو رہی۔
3 کنٹونمنٹ بورڈ کی زمینوں پر قائم کاروبار کی روک تھام پر عدالت کے ریمارکس بھی بڑے دلچسپ تھے عدالت کا سیکرٹری دفاع سے استفسار تھا کہ انہیں بتایا جائے کہ دفاعی مقاصد کے لیے دی گئی زمین پر شادی ہال کے کیا مقاصد ہیں اور کیا قانون آپ کو شادی ہال چلانے کا اختیار دیتا ہے؟ عدالت نے سیکرٹری دفاع کو کہا کہ اگر آپ اپنا گھر ٹھیک نہیں کریں گے تو عام لوگ کیا کہیں گے اور ہمارے حکم پر عمل درامد کس طرح ہوگا؟ منصف اعلیٰ کا یہ بھی کہنا تھا کہ کراچی شہر کو دیکھ کر رونا آتا ہے کہ اس شہر کا کیا بنے گا؟
چونکہ عروس البلاد کراچی پاکستان اہم تجارتی مرکز اور ملک کی معاشی شہہ رگ ہے لہٰذا اس شہر میں رونما ہونے والے واقعات دیگر کے مقابلے میں زیادہ نمایاں ہوجاتے ہیں جبکہ ملک بھر میں ہر جگہ کم و بیش یہی حالات ہیں کچی آبادیوں میں غیرقانونی تعمیرات چائنا کٹنگ کھیل کے میدان اور پارکس پر غیر قانونی قبضے فلاحی کام کے لیے حاصل کیے جانے والے پلاٹوں پر شادی ہال اور کمرشل پلازہ کی تعمیرکراچی میں کے پی ٹی اور پورے پاکستان میں ریلوے کی بڑی اراضی پر قبضے کی کہانی نئی نہیں ہے ہر دور میں آنے اور جانے والے حکمرانوں کی نگرانی میں یہ کام ہوئے جس سے فیوڈل کلاس کو فائدہ ہوا اور ان کی بڑھتی حیثیت نے انہیں وقت کا فرعون بنا ڈالا عدالتیں تو ہمہ وقت موجود تھیں اور انتظامیہ سے پوچھ گچھ ان کا اختیار بھی تھا مگر صد افسوس کہ ملک بھر میں تجاوزات قائم ہوتی رہیں نہ ہماری عدالتیں جاگیں اور نہ ہی انتظامیہ سہ ماہی یا شش ماہی کبھی کبھی ان کا جاگنا اور اپنے سخت ریمارکس اور ناقابل عمل حکم نامہ جاری کرنے کا تمام تر خمیازہ ہر دور میں غریب کو بھگتنا پڑا ہے۔ کچی آبادیوں میں رہائش رکھنے والے اور ٹھیلے پتھارے لگانے والے کون ہیں؟ امر واقعہ یہ ہے کہ ہر سال کچی آبادیوں کو مسمار کرنے اور لوگوں کے روزگار چھیننے کے لیے خصوصی سیل قائم کیا جاتا اور غریب کے نشیمن کو اجاڑا جاتا ہے مگر ان مجرموں کو جو اس کے ذمے دار ہیں ہم نے کبھی سزا پاتے نہیں دیکھا، جاتی امرا ہو کہ بنی گالہ زرداری ہائوس ہو کہ بحریہ ٹائون فوجی عہدیدار ہوں کہ سول انتظامیہ کے بڑے لوگ سرکاری دفاتر کے اندر بیٹھے چھوٹے راشی افسران اور ان کے ماتحت کلرکس اور خود ہماری عدالتوں کی ناک کے نیچے کام کرنے والا عملہ جن کی نشاندہی ہوتی رہتی ہے ہمارا نظام عدل آج تک ان کی گرفت میں ناکام کیوں ہے؟ کیا یہ المیہ نہیں کہ گزشتہ سال کے عدالتی حکم ناموں کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کے گھر اور املاک کی تباہی اور ملک بھر میں دکانوں کے آگے لگے چھجوں کے خاتمے کی مہم نے ہزاروں کے روزگار کو متاثر نہیں کیا تھا؟ کیا ہماری عدلیہ نے دوبارہ یہ جائزہ لینے کی کوشش کی کہ ان کے حکم کی کہیں کوئی خلاف ورزی تو نہیں ہو رہی؟ اسی لیے تو مجبوراً یہ کہنا پڑا کہ
قاضی شہر سے بھی کوئی پوچھے ذرا!
ریاست مدینہ میں توہین عدالت کی پروا کیے بغیر کیا ہم منصف اعلیٰ کے سندھ سے متعلق ان کے تازہ ریمارکس ’’سندھ تباہی کے دہانے پر ہے حکومت ناکام ہو چکی ہے حکمران انجوائے کر رہے ہیں کیا وہ وفاق سے کہیں کے وہ آ کر معاملات سنبھالیں‘‘۔ یہ سوال کر سکتے ہیں کہ انہوں نے ایسا کیوں کہا؟ کیا وہ وفاق کی طرز حکمرانی سے مطمئن ہیں اور کیا وفاق میں کوئی کرپشن نہیں، وزیر اعظم کے دائیں بائیں بیٹھے چینی آٹا چور مافیا سے حساب لے لیاگیا ہے اور کیا پٹرول بحران، دوائیں اور ماسک چور اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ کیا سی پیک کے موجودہ چیئرمین کے اثاثوں سے وہ مطمئن ہیں اور کیا وفاق نے خیبر پختون خوا میں سات سال اور پنجاب میں اپنے دو سالہ حکمرانی کو صحیح ثابت کر دیا ہے؟ اگر نہیں تو وہ سندھ میں کیا اچھا کر لیں گے ہم معزز عدلیہ اور محترم منصف اعلیٰ سے صرف اتنا ہی عرض کر سکتے ہیں کہ خدارا جذباتی نہ ہوں اور خود کو اور عدلیہ کو متنازع ہونے سے بچائیں۔ وزیر اعظم کی ضد ہٹ دھرمی اور انا نے پہلے ہی ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور وہ اب صرف اپنی انا بچانے کے خاطر عدلیہ سے سندھ اور نیب کے ذریعے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر پر ہم کچھ اس لیے نہیں کہیں گے کہ پاکستان بھی کسی فوجی اور عسکری قوت کے بغیر ہمارے اجداد نے اپنی مالی اور جانی قربانی سے آزاد کرایا تھا اور کشمیر کی آزادی بھی ہمارے اجداد کی اس پرانی تاریخ سے رقم ہوگی ان شاء اللہ