شوگر کمیشن پھر قانونی ہو گیا

280

اور اب اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ چینی انکوائری کمیشن اور رپورٹ قانون کے مطابق ہے۔ بحران کے ذمے داروں کے تعین کے لیے کمیشن تشکیل دینے اور رپورٹ کو محض تکنیکی نقائص کے شبہے پر کالعدم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس فیصلے سے پیر کے روز کے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کا کیا ہوگا۔ جس میں عدالت نے کمیشن کو کالعدم قرار دیا بلکہ کمیشن کو جانبدار بھی قرار دیا تھا اور تمام اداروں کو کمیشن اور اس کی رپورٹ سے متاثر ہوئے بغیر تحقیقات کرنے کا حکم دیا تھا۔ اب نئی صورتحال میں یہ ادارے کیا کریں گے۔ ویسے تو ان اداروں کو اب بھی کمیشن کی رپورٹ سے متاثر ہوئے بغیر تحقیقات کرنی چاہیے تاکہ ان کی تحقیق آزاد ہو۔ لیکن اسلام ااباد ہائیکورٹ اس فیصلے کے ساتھ ساتھ کمیشن کو کالعدم قرار دینے والے جج اور عدالت کو بھی طلب کر لیتی کہ معمولی تکنیکی نقائص کی بنیاد پر کمیشن کو کالعدم کیوں قرار دیا گیا۔ یہ رویہ تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے کسی کیس میں ایک عدالت ایک فیصلہ دیتی ہے تو دوسری بڑی عدالت اس کے خلاف اور کچھ ہی دنوں میں عدالت عظمیٰ ازخود نوٹس لے کر تیسرا فیصلہ دے دیتی ہے۔ گزشتہ دو فیصلوں کو غلط قرار دیا جاتا ہے لیکن غلط فیصلہ دینے والوں کے خلاف کبھی کارروائی نہیں ہوئی اور جب ایسا ہوتا ہے تو جو لوگ مقدمے کے فریق ہوتے ہیں وہ نہایت غیر یقینی کیفیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مقدمہ سیاسی ہو تو دونوں فریقی مطمئن رہتے ہیں لیکن بدعنوانی، لوٹ مار اور فراڈ یا منی لانڈرنگ کے مقدمات میں تو مجرم ایسے حالات کا فائدہ ہی اٹھاتے ہیں۔ اس رویے کی اصلاح ہونی چاہیے۔