کشمیر تو پہلے ہی چھوڑا ہوا ہے

372

وزیراعظم عمران خان نیازی نے اپنی حکومت کے دو سال مکمل ہونے پر وفاقی کابینہ کے اجلاس میں مبارک بادیں سمیٹیں اور لمبی اننگز کھیلنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ لیکن دو سالہ کارکردگی پر بات سے قبل ایک اہم بات وزیراعظم نے کی ہے جس پر غور کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کیا تو کشمیر بھی چھوڑنا پڑے گا۔ ایسا کبھی نہیں کریں گے۔ پاکستان کا مستقبل چین سے جڑا ہوا ہے۔ اشرافیہ نے حکومت گرانے کی کوشش کی۔ ذخیرہ اندوز تاحال پیسے بنا رہے ہیں۔ ہر جگہ مافیاز بیٹھے ہیں قیمتیں مصنوعی طریقے سے اوپر کی جاتی ہیں۔ وزیراعظم نے دو اہم باتیں کہی ہیں ایک یہ کہ اسرائیل کو تسلیم کیا تو کشمیر بھی چھوڑنا پڑے گا اس کی وضاحت نہیں کی کہ کشمیر کیوں چھوڑنا پڑ جائے گا۔ بس اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اسے تسلیم کرنے کو میرا ضمیر بھی نہیں مانے گا۔ فلسطین اور اسرائیل کے بارے میں ہمیں اللہ کو بھی جواب دینا ہے۔ بہت خوب… باقی امور کے بارے میں وزیراعظم غور فرمائیں کہ انہیں کیا ان میں اللہ کو جواب نہیں دینا ہے۔ وزیراعظم کا خیال ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کیا تو کشمیر کو چھوڑنا پڑے گا۔ لیکن کشمیر کو تو اسرائیل تسلیم کیے بغیر چھوڑ رکھا ہے۔ حکومت کا کون سا ایسا قابل ذکر کام ہے جو کشمیر کے لیے اس نے کیا ہو۔ رونا تو یہی ہے کہ عمران خان کی حکومت کشمیر کو بھارت کے حوالے کرکے مطمئن ہے۔ خان صاحب کو کشمیر میں بھارت کے اقدامات پر کوئی فکر نہیں ہوئی تو وہ کیسے کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل اور فلسطین پر اللہ کو جواب دینا ہوگا۔ ضمیر کے بارے میں بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک سال سے کشمیریوں پر ہونے والے مظالم پر خاموشی بھی تو ضمیر پر بوجھ ہونی چاہیے لیکن اس وقت ضمیر کہاں گیا تھا۔ اب اگر حکومت کا جھکائو اور معاملات دیکھیں تو ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستانی حکمران بھی عالم عرب کی پیروی کریں گے۔ قادیانیوں کو مراعات دیتے وقت، مشیر مقرر کرتے وقت اور سود کی حمایت کرتے وقت، سودی قرضے لیتے وقت ضمیر کیوں مطمئن رہتا ہے۔ جواب تو ان سب کا اللہ کے پاس جا کر دینا ہے اور سب سے بڑھ کر مافیاز، اشرافیہ اور سابقہ حکمرانوں کو الزام دے دے کر کب تک کام چلایا جائے گا۔ ہر حکمران کو اللہ کے سامنے جا کر جواب دینا ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم تو یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک حکمران ہے اور ہر ایک کو اپنی رعیت کے بارے میں جواب دینا ہوگا۔ ایک خاندان کے معمولی سربراہ سے لے کر اداروں کے سربراہوں تک کو ایک ایک ماتحت کا جواب دینا ہوگا اور ملک کا حکمران تو ہر طرح جواب دہ ہوگا۔ یہ کوئی آسان بات نہیں ہے کہ کسی ملک کی حکمرانی حاصل کر لی جائے، کابینہ کے اجلاس میں مبارکباد وصول کرلی جائے، کبھی حکمرانی کو دکان داری سے ملایا جائے اور کبھی لمبی اننگز کھیلنے کا عزم کیا جائے۔ عمران خان صاحب کرکٹ کی اصطلاح استعمال کر رہے ہیں تو اس اصطلاح میں بات ہو جائے کہ جناب لمبی اننگز تو کھیل رہے ہیں لیکن یہ لمبی اننگز کس کام کی جس میں ڈاٹ بالز زیادہ ہیں کوئی اسکور نہیں ہے۔ کشمیر پر مسلسل ڈاٹ بال کھیل رہے ہیں ڈیفنس یا دفاعی سے زیادہ خراب حکمت عملی ہے۔ گیند کھیلنے کی کبھی کوشش نہیں کر رہے خالی چھوڑ (لیفٹ کر) رہے ہیں۔ ایسی لمبی اننگز کھیل کر اپنی ٹیم (پاکستان) کو کیا فائدہ پہنچائیں گے۔ اسے وقت گزاری کہتے ہیں۔ بات صرف کشمیر کی نہیں ہے بلکہ معیشت میں بھی مسلسل ڈاٹ بالز ہیں۔ وفاقی کابینہ میں وزیروں نے تو خوب خوب داد دی ہے لیکن یہ تو انجمن ستائش باہمی ہے۔ مافیاز ان کے دائیں بائیں اور کابینہ میں ہیں لیکن ان کے معاملات پر بھی ڈاٹ بال۔ گزشتہ وعدے۔ ایک کروڑ ملازمتیں، پچاس لاکھ گھر۔ ایک ارب درخت، سڑکیں، بی آر ٹی، مہنگائی، بیروزگاری۔ کون سا کام ہے جس میں حکومت نے اچھی کارکردگی دکھائی ہو۔ مافیاز کو ساتھ بٹھا کر مافیاز کا رونا عجیب بات ہے۔ جہاں تک اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات ہے وہ یہ سادا سا معاملہ نہیں ہے۔ اس کا فیصلہ بھی ضمیروں پر نہیں چھوڑا جائے گا۔ یہ خبر سب کے سامنے آچکی ہے کہ اسرائیل سے تعلقات کے لیے سعودی عرب پر امریکی دبائو ہے۔ امریکی دنیا بھر میں پرانا کھیل کھیل رہے ہیں۔ سعودی عرب کو ایران کا ہوا دکھا کر اس سے تحفظ اور اس کو تنہا کرنے کا خواب دکھا کر سعودی عرب کو رام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر سعودی عرب جیسی مضبوط معیشت والے ملک کا یہ حال ہے کہ اس نے اسرائیل سے تعلقات کے لیے نیم رضامندی ظاہر کر دی ہے تو پاکستانی وزیراعظم کا ضمیر سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے تو کم ہی مضبوط ہو گا۔ معاملہ کسی بلاک میں ہونے سے بھی حل نہیں ہو گا۔ وزیراعظم نے اشارہ دیا ہے کہ ہم اب چین کے بلاک میں ہیں لیکن دنیا ابھی امریکی اثر سے نہیں نکلی ہے۔ کیونکہ امریکی اثرات صرف امریکی نہیں بلکہ اس کے ساتھ کام کرنے والی تمام طاقتیں امریکی مفادات کے لیے کام کر رہی ہیں۔ ان کے تمام اثرات مسلم حکمرانوں پر ہیں۔ ابھی یہ جنگ بڑھے گی اور مسلم دنیا کی بلاکوں میں تقسیم کے آثار نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ سعودی عرب نے جو شرط رکھی ہے وہ بڑی کمزور ہے کہ فلسطینیوں سے امن معاہدے تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔ اسرائیل کا کیا ہے جب چاہے معاہدہ کر لے۔ یہود کا تو کام ہی یہ ہے کہ ہمیشہ معاہدوں سے پھرتے ہیں۔ فلسطینیوں سے ہونے والے معاہدوں سے بھی پھر چکے ہیں۔ کیمپ ڈیوڈ اور اوسلا معاہدوں پر اسرائیل نے کتنا عمل کیا۔ اس شرط پر تو اسرائیل فوراً عمل کرے گا اور سعودی عرب اسرائیل سے تعلقات قائم کر لے گا۔ پاکستانی حکمران تو چند کروڑ ڈالر کے قرضے پر ڈھیر ہوسکتے ہیں۔ ابھی سعودی عرب نے جو ہاتھ کھینچا ہے اس کو دوبارہ کشادہ کر کے پاکستان سے کچھ منوایا جا سکتا ہے۔