پرستارانِ پی ٹی آئی، آپ کو سلام

466

ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا ہم گھاس کھالیں گے لیکن ایٹم بم بنا کر ہی دم لیں گے۔ اب یہ تو معلوم نہیں کہ قوم واقعی گھاس کھانے کے لیے تیار بھی تھی یا نہیں لیکن سلام ہے پی ٹی آئی کے ووٹروں اور سپورٹروں کو جو معلوم نہیں خود گھاس کھا رہے ہیں یا نہیں لیکن قوم کو انہوں نے وہاں تک ضرور پہنچا دیا ہے جہاں زندہ رہنے کے لیے شاید گھاس ہی کھانی پڑے لیکن مجھے ڈر ہے کہ جونہی قوم کے پاس کھانے کے لیے گھاس کے سوا کوئی اور ’’چارہ‘‘ ہی نہ رہ جائے گا تو کہیں گھاس کو بھی بڑے بڑے پیٹ والے سیٹھ ذخیرہ نہ کر لیں اور اس کے دام بھی آسمان کو چھونے لگیں۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق وفاقی ادارہ شماریات نے ملک میں چینی کی قیمتوں سے متعلق تفصیلات جاری کردیں۔ اعدادو شمار کے مطابق پشاور میں ایک کلو چینی کی قیمت 110روپے تک پہنچ گئی جبکہ لاہور، اسلام آباد، کراچی، کوئٹہ، حیدرآباد، راولپنڈی میں چینی 100 روپے کلو فروخت ہو رہی ہے۔ آج سے ٹھیک 25 ماہ قبل یہی چینی عام بازار میں صرف 53 روپے کلو میں فروخت ہوا کرتی تھی۔ اسی طرح دواؤں کی قیمتوں سے لیکر آٹا، ڈالیں، چاول، گھی، کھانا پکانے کا تیل، گرم مصالحے، خشک میوے، کپڑے دھونے کا صابن اور پوڈر، ٹوتھ پیسٹ، تمام اقسام کی سبزیاں اور پھل، غرض کوئی بھی شے ایسی نہیں جو مارکیٹ میں 100 فی صد سے 200 فی صد تک کے اضافے کے ساتھ فروخت نہیں ہو رہی ہو لیکن سلام پی ٹی آئی کے سپورٹروں اور پرستاروں کو جو ایک کالم بھی مہنگائی کے خلاف لکھنے، ڈی چوک پر بل جلانے، پاکستان بھر میں مہنگائی کے خلاف جلسے، جلوس اور ریلیاں نکالنے کی تیار ہوں۔
ایک زمانہ تھا جب سربراہ مملکت کے متعلق یہ خبر سنائی دیتی تھی کہ وہ فلاں وقت قوم سے خطاب کریں گے یا قوم کو اعتماد میں لیکر کوئی اہم اعلان فرمائیں گے تو بلا شبہ قوم کے نہ صرف کان کھڑے ہوجایا کرتے تھے بلکہ انہیں امید ہوتی تھی کہ ان کا خطاب یا اعلان قوم کے لیے کوئی اچھی نوید لائے گا۔ شروع شروع میں موجودہ وزیر اعظم پاکستان کے لیے بھی قوم اسی اشتیاق کا شکار تھی لیکن اب خوفزدگی کا یہ عالم ہو گیا ہے کہ جیسے ہی عوام کے علم میں یہ بات آتی ہے کہ آج صاحب کوئی اہم اعلان فرمانے والے ہیں، مسجدیں آباد ہوجاتی ہیں اور عوام ردِ بلا کی دعائیں مانگنے میں مصرف ہو جاتے ہیں۔
وزیر اعظم نے 2020 کے متعلق فرمایا تھا کہ وہ خوش خبریوں کا سال ہوگا، کورونا نے پوری دنیا کے ساتھ پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ہر روز کسی نہ کسی اہم شخصیت کے دنیا سے رخصت ہونے کی خبر سنائی دیتی رہی۔ حال ہی میں انہوں نے فرمایا تھا کہ اب ہم معاشی استحکام کی جانب بڑھنا شروع ہو گئے ہیں، کھانے پینے کی اشیا سستی ہو جائیں گی، چند دنوں کے بعد ہے انہوں نے قوم کو نوید سنائی کہ آنے والے دنوں میں عوام کو خوراک کی خوفناک کمی کا سامنا درپیش ہوگا۔ جس ملک میں کرپشن کے سارے دروازے بند کر دیے گئے ہوں، کرپشن کی نذر ہونے والے روزانہ کے بارہ ارب روپے بچائے جاتے ہوں، جہاں اسٹاک مارکیٹ دن دگنی رات تگنی ترقی کر رہی ہو، جہاں بیرونی ممالک سے ڈالروں کی بارش ہو رہی ہو، بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانی عوام کروڑوں ڈالر پاکستان بھیج رہے ہوں، جس ملک کے حکمرانوں نے اپنی تنخواہوں، الاؤنسز، مراعات اور سرکاری اخراجات میں بے حساب کمی کر دی ہو، پروٹوکول کی مد میں بچتیں ہو رہی ہوں، کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ برابر کر دیا گیا ہو اور ہر شے کی قیمتوں میں اضافہ کرکے ملکی خزانے میں ہر ایک گھنٹے بعد کھرب ہا کھرب روپے سیلابِ بلا کی طرح بہہ بہہ کر گر رہے ہوں، کیا اس ملک کے عوام اس بات کا حق نہیں رکھتے کہ وہ حکمرانوں سے پوچھ سکیں کہ جب ملک میں لوٹا ماری بھی بند ہو گئی ہو، بیرونی ممالک سے ڈالر بہہ بہہ کر آ رہے ہوں، قرضوں کی مد میں پوری دنیا آپ پر ڈالروں کی برسات کر رہی ہو، ملک کی معیشت بلندی کی جانب گامزن ہو اور ٹیکسوں کی صورت میں روز کی بنیاد پر ان گنت سرمایہ حاصل ہو رہا ہو تو روپیہ کاغذ کا پرزہ کیسے بن کر رہ گیا، اشیائے ضروریہ کی ہر مصنوعی اور قدرتی شے کی قیمت آسمان کو کیوں چھونے لگی اور ملک میں بے روز گاری میں خوفناک حد تک کیسے اضافہ دیکھنے میں آنے لگا۔ شروع شروع میں جب الیکشن سے قبل کے تمام وعدوں اور دعوں کے برعکس موجودہ حکومت کے اقدامات سامنے آنا شروع ہوئے تو شاید پی ٹی آئی کے ووٹرز اور سپورٹرز کو کچھ سبکی محسوس ہونے لگی لہٰذا خفت کو چھپانے کے لیے انہوں نے اپنا موقف یہ کہہ کر بدل لیا کہ ہم نے پی ٹی آئی کو اس لیے ووٹ نہیں دیے تھے کہ ملک میں مہنگائی کا خاتمہ کرنا مقصود تھا، ہم تو ملک کے خزانوں کو لوٹنے والوں کو الٹا لٹکا ہوا دیکھنا اور لوٹا ہوا پیسہ واپس آتا دیکھنا چاہتے ہیں چنانچہ چند چنیدہ افراد کے خلاف کارروائیاں ان کے لیے کافی خوش کن تھیں لیکن اب تک کا سارا معاملہ بہر لحاظ مختلف پاکر ممکن ہے کہ دل ہی دل میں وہ سب اپنی جگہ پشیمان و پریشان ہوں لیکن میں تمام پرستارانِ پی ٹی آئی کو سلام پیش کرتا ہوں کہ اپنے لیڈر کے یوٹرن پر یوٹرن لینے، مہنگائی کے جن کے بے قابو ہوجانے اور تمام لٹیروں کے آزاد پھرتے دیکھنے کے باوجود بھی وہ اب تک پی ٹی آئی کے دامِ فریب سے باہر نکل آنے کے لیے تیار نہیں۔ وزیر اعظم صاحب ہمیں چھوڑیں، اپنی چاہت میں گرفتار سپورٹروں کے لیے ہی کوئی ایسا کام کر جائیں کہ وہ اپنے گلی محلوں میں سر اٹھا کر چل سکیں۔ امید ہے آپ اس درمندانہ درخواست کو ضرور قبول فرمائیں گے۔