تحریک آزادی کا مقصد

280

جو قوم اپنی تاریخ کو زیادتی کا نشانہ بناتی ہے وہ اقوام عالم میں زیادتی کا سب سے آسان ہدف بن جاتی ہے۔ تاریخ میں جھوٹ کا عنصر شامل کرنا پوری تاریخ کو مشکوک بنا دیتا ہے۔ اگر ہم اپنی ننھی منی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہر طرف ہمیں منی بیگم ہی دکھائی دیتی ہیں۔ مولانا بھاشانی، جی ایم سید، غفار خان اور ولی خان کے ساتھ ہمارے نام نہاد مورخین نے جو کچھ کیا ہے وہ باعث ندامت ہے۔ مولانا مفتی محمود نے پاکستان کو گناہ قرار دیا اور ساری زندگی اس گناہ سے محفوظ رہنے پر خدا کا شکر ادا کرتے رہے۔ اور ہم نے انہیں خیبر پختون خوا کا نہ صرف وزیر اعلیٰ بنایا بلکہ ان کی یاد میں ایک یادگاری ٹکٹ بھی جاری کر دیا۔ ہمیں آزاد ہوئے 73سال بیت چکے ہیں۔ کیا واقعی ہم آزاد ہیں نہیں ہرگز نہیں کیونکہ آزادی کا ایک اہم عنصر خودمختیاری ہوتا ہے۔ خود مختیاری کے بغیر آزادی بدترین غلامی ہوتی ہے جسے کوئی بھی نام دیا جاسکتا ہے مگر آزادی نہیں کہا جاسکتا۔ جیسے ادب سے جمالیاتی عنصر نکال دیا جائے تو ادب پارہ نہیں کہلاتا۔ آنکھوں دیکھا حال یا ناقابل فراموش واقعہ ہی کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان کا وجود بھی ناقابل فراموش واقعہ ہے ہم انہی کالموں میں بارہا کہہ چکے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان نے تحریک انصاف کی بنیاد وزارت عظمیٰ کے حصول کے لیے رکھی تھی۔ مگر ان کو وزیر اعظم کی مسند پر براجمان ہونے کے بعد کیا کرنا ہے اس کے بارے میں کچھ نہیں سوچا تھا اور نہ ہی سوچنا چاہتے ہیں۔ حالات و واقعات گواہ ہیں کہ آزادی کا مقصد قیام پاکستان تھا۔ مسلم لیگ کو حکمرانی کے لیے ایک خطہ آراضی درکار تھا۔ حالانکہ اس معاملے میں بعض انگریز حکمران بھی تذبذب کا شکار تھے مسٹر چرچل کا کہنا تھا کہ پچاس سال تک حکمرانی کے آداب سکھائے جائیں کیونکہ حکمرانی سے زیادہ اہم مضبوط معیشت کا ہونا بہت ضروری ہے۔
مسلم لیگ پاکستان کے نام پر جو علاقہ طلب کررہی ہے وہاں پر صنعتیں نہیں ہیں اور صنعتوں کے بغیر ملک نہیں چل سکتا۔ کہتے ہیں بعض مسلم لیگی رہنمائوں کو بھی یہ احساس ہونے لگا تھا کہ معیشت کے بغیر پاکستان کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا اس معاملے میں انہوں نے غور وغوص شروع کردیا ہے کہ انگریز تقسیم سے قبل کچھ صنعتیں قائم کرے تاکہ معاشی مسئلہ پیدا نہ ہو۔ منصوبے کے مطابق بے صغیر کی تقسیم 1948 میں ہونا تھی مگر جوں ہی انگریزوں کو کہ بھنک پڑی کہ بعض مسلم رہنما تقسیم سے پہلے معاشی مسئلے کا حل چاہتے ہیں اس لیے انہوں نے ایک سال پہلے ہی تقسیم پر عمل کرڈالا۔ تاکہ معیشت کے بارے میں کوئی تحریک نہ چلائی جائے اگر تقسیم سے قبل صنعتوں کا مطالبہ کیا جاتا تو آج پاکستان معاشی طور پر اتنا بد حال نہ ہوتا۔ جواہر لال نہرو نے بھی اس معاملے میں لیگی دوستوں کو سمجھانے کی کوشش کی اور یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ جس علاقے میں تم قیام پاکستان کے متمنی ہو وہاں تو صنعتیں ہی نہیں ہیں اور معیشت کے بغیر کوئی بھی ملک نہیں چل سکتا۔ اور یوں پاکستان معرض وجود میں آنے کے بعد چھ ماہ ہی میں اپنا وجود کھو دے گا مگر اسے بنیے کی سازش قرار دیا گیا۔ قیام پاکستان انگریزوں کی بھی ضرورت تھا اس نے بھی ہر ممکن کوشش کی کہ پاکستان کا وجود معرض وجود میں آجائے مگر وہ معاشی اعتبار سے بہت کمزور ہو۔ اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے جاگیردار طبقے کو اپنا ہم نوا بنا لیا۔ یہ جاگیر دار طبقہ ہندوئوں کا مقروض تھا اور بہت سے جاگیردا رایسے تھے جنہوں نے اپنی زمین رہن رکھی ہوئی تھیں۔ تقسیم کے بعد یہ لوگ ہندوستان چلے جاتے یوں ان کی زمین رہن کے غلامی سے آزاد ہوجائیں گی۔ بالآخر مسلم لیگ کی تحریک رنگ لائی اور پاکستان معرض وجود میں آگیا پاکستان کے پاس اتنا پیسہ بھی نہ تھا کہ اپنا سکہ جاری کر سکے اس معاملے میں نواب آف بہاولپور نے اپنے خزانے کا منہ کھول دیا یوں پاکستا ن نے اپنا سکہ جاری کیا۔ جواہر لال نہرو کا کہا سچ ثابت ہونے لگا کہ پاکستان کی معیشت اس قابل بھی نہ ہوگی کہ اپنا سکہ جاری کر سکے۔ اس لیے پاکستان پاکستان کی معیشت کے بارے میں نہ سوچنا ایک ایسی سیاسی غلطی ہوگی جو آنے والی نسلوں کو بھی تباہ کردیے گی۔ پاکستان وجود میں آگیا مگر کسی لیگی رہنما کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ معیشت کے بارے میں سوچتا اور اب تو یہ حال سے دونوں ہاتھوں میں کشکول اٹھائے دنیا بھر میں بھیک مانگتے پھرتے ہیں۔