بات چل نکلی ہے (پہلی قسط)

569

جمعرات 13اگست کو اسرائیل اور متحدہ عرب امارات نے امریکی سرپرستی میں تعلقات معمول پر لانے کی سمت پیش رفت کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کے الفاظ میں ایک تاریخی امن معاہدہ کیا۔ صدر ٹرمپ کی ثالثی میں طے پانے والے امن معاہدے کے تحت اسرائیل اور متحدہ عرب امارات معمول کے مکمل سفارتی تعلقات قائم کریں گے اور اسرائیل اس کے بدلے میں غربِ اردن میں فلسطینیوں کی مزید اراضی کو نہیں ہتھیائے گا۔ اس معاہدے کے تحت اسرائیل نے غربِ اردن میں واقع اپنے زیر قبضہ وادی اردن اور بعض دوسرے علاقوں کو ریاست میں ضم کرنے کے منصوبے سے دستبردار ہونے سے اتفاق کیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے جولائی میں ان علاقوں کو صہیونی ریاست میں ضم کرنے کا اعلان کر رکھا تھا۔ اسرائیل اور یو اے ای کے درمیان اس ڈیل کو ’’معاہدہ ابراہیم‘‘ (ابراہام اکارڈ) کا نام دیا گیا ہے۔ اسرائیل کا کسی عرب ملک کے ساتھ 25 سال کے بعد یہ پہلا امن معاہدہ ہے۔ متحدہ عرب امارات، مصر اور اردن کے بعد، اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے والا تیسرا عرب اور پہلا خلیجی ملک بن گیا۔ مصر نے اسرائیل کے ساتھ 1979ء میں کیمپ ڈیوڈ میں امن معاہدہ طے کیا تھا۔ اس کے بعد 1994ء میں اردن نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کے بعد سفارتی تعلقات استوار کیے تھے۔
معاہدے کے ساتھ ہی بعض معتبر حلقوں کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ معاہدے کے تحت اسرائیل، مقبوضہ غرب اردن کے ان علاقوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کی کارروائی کو مکمل طور پر ختم نہیں بلکہ فی الوقت ’معطل‘ کر رہا ہے جنہیں یکم جون کو مشتہر کی جانے والی صدی کی ڈیل کے مطابق اسرائیلی ریاست کا حصہ بننا تھا۔ معاہدے کے اگلے ہی دن اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اس بات کی تصدیق کردی۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات سے باہمی تعلقات کا معاہدہ طے پانے کے باوجود مغربی کنارے کو اسرائیل میں شامل کرنے کا منصوبہ ختم نہیںکیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات سے باہمی تعلقات کے معاہدے کے تحت وہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کے منصوبے میں تاخیر پر رضا مند ہیں لیکن یہ منصوبہ اب بھی ان کی ٹیبل پر موجود ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے ٹی وی پر خطاب میں کہا کہ انہوں نے صرف اس منصوبے میں تاخیر پر رضا مندی ظاہر کی تھی لیکن وہ اپنے حقوق اور اپنے زمین کے لیے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی خودمختاری کو بڑھانے کے منصوبے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔
اسرائیلی وزیراعظم کی اس وضاحت کے باوجود عرب امارات کے حکمرانوں کا جوش وخروش دیدنی ہے۔ امن معاہدے کے بعد امارات اور اسرائیل کے درمیان فون پر رابطے پر بحال ہوگئے ہیں اور پہلے سے بند ویب سائٹس کھول دی گئی ہیں۔ یو اے ای کی وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر برائے تزویراتی ابلاغ ہند العتیبہ نے اتوار کو ایک ٹویٹ میں بتایا ہے کہ ’’اماراتی وزیرخارجہ شیخ عبداللہ بن زاید ال نہیان اور ان کے اسرائیلی ہم منصب گابی اشکنازی نے دونوں ملکوں کے درمیان فون رابطے کا افتتاح کیا ہے‘‘۔ اسرائیل اور یو اے ای میں فون روابط کی بحالی کے ساتھ ہی بعض شر انگیز ویب سائٹس جو امارات کے مسلمانوں کو گمراہ کرتی تھیں وہ بلاک کردی گئی ہیں۔ اسرائیل کی نیوز ویب سائٹ ’’دا ٹائمز آف اسرائیل‘‘ بھی اتوار کو یواے ای میں آن لائن دستیاب تھی۔ اس سے پہلے اماراتی حکومت نے اس ویب سائٹ کو ملک میں بلاک کررکھا تھا۔ معاہدے کے تحت اب اسرائیل اور یو اے ای کے وفود آئندہ ہفتوں کے دوران میں ملاقات کریں گے اور وہ سرمایہ کاری، سیاحت، براہ راست پروازیں شروع کرنے، سیکورٹی، ٹیلی مواصلات، ٹیکنالوجی، توانائی، تحفظ صحت، ثقافت، ماحول اور ایک دوسرے کے ملک میں اپنے اپنے سفارت خانے کھولنے اور بعض
دوسرے شعبوں میں دوطرفہ تعاون کے فروغ کے لیے مختلف سمجھوتوں پر دستخط کریں گے۔ یو اے ای میں یہودیوں کی پہلی عبادت گاہ 2022 تک بنے گی۔
ایران کے صدر حسن روحانی نے اسرائیل امارات معاہدے کی مذمت کی، اسے غداری قرار دیا اور کہا کہ متحدہ عرب امارات نے ’’بہت بڑی غلطی‘‘ کی ہے۔ سخت گیر ایرانی اخبار روزنامہ ’’کیہان‘‘ نے لکھا ہے کہ ’’متحدہ عرب امارات کی فلسطینی عوام سے بڑی غداری۔ اس چھوٹے، متمول ملک، جو اپنی سیکورٹی کے لیے دوسرے ممالک پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، کو ایک قانونی اور آسان ہدف بنا دے گی‘‘۔ یاد رہے روزنامہ کیہان کے چیف ایڈیٹر کو ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای مقرر کرتے ہیں۔ فلسطین نے امارات سے اپنا سفیر احتجاجاً واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ’’الاقصیٰ، مقبوضہ بیت المقدس اور فلسطینی کاز کو دھوکا دیا گیا۔ متحدہ عرب امارات حقیر معاہدے سے فوری پیچھے ہٹے۔ امارات کو حق نہیں پہنچتا کہ فلسطینی عوام کی طرف سے بات کرے، کسی کو فلسطینیوں کے امور میں مداخلت کی اجازت نہیں دیں گے‘‘۔ فلسطینی اتھارٹی نے عرب لیگ کا ہنگامی اجلاس بلا کر معاہدے کو مسترد کرنے کا مطالبہ کیا ترک صدر رجب طیب اردوان کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ صہیونیوں کا روّیہ ناقابل قبول ہے۔ عرب امارات نے اپنے مفاد کے لیے فلسطینیوں کو دھوکہ دیا۔ یو اے ای کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات معطل کر سکتے ہیں اور اپنا سفیر واپس بلاسکتے ہیں۔ یاد رہے کہ ترکی کے اسرائیل سے دیرینہ سفارتی اور تجارتی تعلقات ہیں۔
یہ تمام اظہار ناراضی بجا لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ بیش تر عرب ممالک کے حکمرانوں کے الفاظ سستے اور بے وقعت ہوتے ہیں۔ عوام کو مطمئن کرنے کے لیے سستی جذباتیت، عمل سے کوسوں دور۔ معاملہ اسرائیل اور امریکا کا ہو تو ان الفاظ کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ معاملہ ٹھنڈا ہونے کے بعد گلشن کا کاروبار پہلے کی طرح بلکہ اس سے بھی سوا چلتا رہتا ہے۔ مسلم ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کوئی انہونی اور نئی بات نہیں ہیں۔ دیکھنا بس یہ ہے کہ یہ تعلقات چارپائی کے نیچے ہیں یا چارپائی کے اوپر۔
اسرائیل کے ساتھ تعلقات عظیم قومی مفاد کے نام پر استوار کیے جاتے ہیں۔ عوام کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ان تعلقات سے دفاعی حیثیت مضبوط اور ان کے عالمی کردار میں اضافہ ہوگا۔ حقیقت یہ ہے ان تعلقات کو عرب اور مسلم ممالک کے حکمران اپنی مدت اقتدار کے لیے طاقت تصور کرتے ہیں۔ دوسری صورت میں ان کا اقتدار خطرے میں پڑسکتا ہے۔ 24برس قبل، امارات سے ملتی جلتی مگر غیر اعلانیہ (چارپائی کے نیچے)، پیش رفت قطر میں بھی ہوئی تھی۔ جس کے بعد قطر میں پہلے اسرائیلی عہدیدار کی آمد ہوئی اور وہاں اسرائیلی پرچم لہرایا گیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم شمعون پیریز کا قطر میں ریڈ کارپٹ خیر مقدم کیا گیا۔ یہ سب اس وقت کے قطری حکمران ا حمد بن خلیفہ نے اپنے والد کا تختہ الٹنے کے صرف تین ماہ بعد کیا تھا۔ انہوں نے اس کا سبب یہ بیان کیا تھا کہ وہ اپنے اقتدار کو مضبوط بنانا چاہتے تھے۔ مصر کے سابق صدر انور السادات نے بھی ایسے ہی جواز کا سہارا لیا تھا اور ایک بڑے اسٹر ٹیجک فریم ورک میں مصر کے عظیم قومی مفاد کے نام پر اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا تھا اور تل ابیب سے سفارتی تعلقات استوار کیے تھے۔ سوڈان کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ سوڈان کی عبوری حکمران کونسل کے چیئرمین عبدالفتاح البرھان سے عمر البشیر حکومت کے خاتمے کے بعد اسرائیل سے راہ ورسم بڑھانے سے متعلق سوال کیا گیا تو ان کا جواب تھا کہ ’’ایسا کرنا سوڈان کے سپریم قومی مفاد میں ہے‘‘۔ سوڈان کے سرائیل سے تعلقات اور نارملائزیشن کا اعلان بھی یو اے ای کی طرح خرطوم کی دیرینہ پالیسی میں واضح تبدیلی تھی۔ معزول صدر عمر البشیر نے اقتدار کے خاتمے سے قبل انکشاف کیا تھا کہ انہیں اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کا مشورہ دیا گیا تھا، جو انہوں نے ماننے سے انکار دیا تھا۔ یاد رہے سوڈان اور اسرائیل کے درمیان کبھی دوطرفہ سرکاری تعلقات نہیں رہے، اگرچہ سوڈان سے 2011 میں الگ ہونے والے علاقے جنوبی سوڈان کے تل ابیب سے قریبی تعلقات ہیں۔
(جاری ہے)