عمر مختار کے لیبیا میں خود مختاری کی جنگ؟

497

وکیل صفائی کے دلائل ختم ہوتے ہی کمرہ عدالت جج کی آواز سے گونج اُٹھا اور وکیل صفائی خاموشی سے اپنی نشست پر بیٹھ گیا۔ جج نے زور دار آواز میں وکیل صفائی کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ تمہیں ملزم کو مجرم ثابت کرنے کے لیے بلایا تھا لیکن تم نے اٹلی کے غدار کو بے گناہ ثابت کردیا۔ جواب میں وکیل صفائی نے ادب سے کہا کہ مجھے ملزم کا وکیل صفائی مقرر کیا گیا تھا، میں نے اپنا فرض ادا کیا ہے۔ جج نے دوبارہ بٹھا دیا اور فوراً فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ’’عمر مختار تم کو سزائے موت دی جاتی ہے‘‘۔ عمر مختار نے خاموشی سے سر اُٹھایا، جج کی جانب اطمینان و سکون سے دیکھا اور قید خانے کی جانب روانہ ہو گئے۔
جی یہ وہی عمر مختار مجاہد ہیں جنہوں نے اٹلی، فرانس اور برطانیہ سے مقابلہ کیا،20 سال کے انتھک مقابلے کے بعد انہیں 73سال کی عمر میں گرفتار کرکے اٹلی کی فوجی عدالت سے سزائے موت دی گئی۔ آج ایک مرتبہ پھر ’’عمر مختار کے ملک لیبیا میں فرانس اور اٹلی فعال ہیں اس کے علاوہ ناٹو نے مسلمانوں کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ جنگ سے لیبیا دو حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے۔ لیبیا اٹلی کی واحد کالونی تھی اور آج بھی وہ اس کو اپنی کالونی سمجھتا ہے۔ لیبیا رقبے کے لحاظ سے بہت بڑا ملک ہے دارالحکومت طرابلس سے بہت دور بن غازی ہے۔ اس کی وجہ سے یہ حصوں میں تقسیم ہوگیا لیکن ’’شاہ ادریس‘‘ نے اس کو دوبارہ ایک کردیا۔ 1969ء میں شاہ ادریس اپنے علاج کے لیے ترکی گئے ہوئے تھے تو’’کرنل قذافی‘‘ نے ان کا تختہ اُلٹ دیا۔ کرنل قذافی نے لیبیا پر 42 سال حکومت کی۔ عرب بہار کے شروع ہوتے ہی لیبیا میں زور دار مظاہرے شروع ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں بن غازی پر خلیفہ حفتر کا قبضہ ہوگیا خلیفہ حفتر پہلے کرنل قذافی کے نائب کے طور پر کام کرتے تھے لیکن بعد میں اختلاف کے باعث وہ امریکا چلے گئے۔ بن غازی مصر کے ساتھ لیبیا کی سر حد ہے ۔ قذافی نے جب بن غازی پر بمباری شروع کردی تو ’’ناٹو‘‘ خلیفہ حفتر کی حمایت میں کرنل قذافی کے سامنے آگیا۔ اس طر ح لیبیا میں خلیفہ حفتر کی متوازی حکومت کو اقوام متحدہ نے تسلیم کرلیا اور قذافی کو ان کے بیٹے ’’محتشم قذافی‘‘ کے ساتھ مار دیاگیا۔ لیبیا میں آج بھی خانہ جنگی جاری ہے۔ خلیفہ حفتر کو مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مکمل حمایت مل چکی ہے۔ مصری ’’جنرل سیسی‘‘ کو اس بات کا خطرہ ہے کہ اگر طرابلس پر خلیفہ حفتر کی حکومت نہ بن سکی تو اس کے جواب میں ترکی سے ’’اخوان المسلمون‘‘ طرابلس پر قبضہ کر لیں گے۔ سیسی کو یاد ہے کہ مصر میں اس نے ’’اخوان‘‘ کے منتخب صدر مرسی کو جیل میں شہید کر دیا تھا۔ مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت بن گئی تو ’’غزہ کی پٹی‘‘ جس کو اسرائیل نے جیل بنا کر رکھا ہوا ہے۔ اس علاقے پر ’’حماس‘‘ کا قبضہ ہو جائے گا۔
طرابلس میں موجود اخوان اور حماس کے افراد ’’سیسی‘‘ اور اسرائیل دونوںکے لیے خدشات کا باعث ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مصر میں اخوان اور غزہ پر حماس کی موجودگی سے ’’نہر سوئس‘‘ پر بھی ان کا قبضہ ہو جا ئے گا۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ’’بحرۂ احمر‘‘ سے جانے اور آنے والے جہازوں پر ’’نہر سوئس‘‘ سے نظر رکھی جاسکے گی۔ یہ صورتحال اسرائیل اور اس کی حامی خلیجی ریاستوں کے حکمرانوں کو اقتدار سے محرومی اور اخوان کے اقتدار میں آنے کا خدشہ بڑھا دے گی۔ پاکستان کے ٹی وی اینکرز کو اس بات کیفکر لاحق ہوگئی ہے کہ لیبیا میں ترکی کی کیا دلچسپی ہے۔ لیکن مصر کے پہلے منتخب صدر مرسی کی شہادت اخوان اور فلسطینیوں پر حملے اور ان کی اپنے ہی گھروں سے بے دخلی اور کشمیریوں کی ایک سال سے ’’مودی جیل‘‘ میں بندش کی کوئی فکر نہیں ہے۔ لیکن آج ان کو اس بات کی فکر کھائے جارہی ہے کہ ’’اخوان المسلمون‘‘ لیبیا کے راستے مصر پر قابض نہ ہو جائیں۔ انہیں اس بات کا خدشہ بھی ہے کہ ’’نہرسوئس‘‘ جس پر برسوں سے اسرائیل سمیت یورپی ممالک کے جہاز اپنی مقرر کردہ ’’رائیلٹی‘‘ پر گزار رہے ہیں اس پر اخوان کا قبضہ نہ ہوجائے۔ کیوں کہ اخوان کا قبضہ صرف مصر پر نہیں پورے عالم عرب کے لیے ہوگا اور بہت تیزی مصر کے بعد دوسرے ممالک پر بھی اخوان کی حکومت بن سکتی ہے۔
عمر مختار کی تصویر لیبیا کے 10 دینار کے نوٹ پر چھپی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کی سب سے بڑی فلمی صنعت ہالی ووڈ نے 1981ء میں ان کی زندگی پر ایک فلم lion of the desert ’’صحرا کا شیر‘‘ بنائی۔ اس فلم کے لیے فنڈنگ سابق صدر لیبیا کرنل قذافی نے کی تھی۔ فلم میں عمر مختار کا کردار انتھونی کوئن نے ادا کیا۔ عمر مختار نے فوجی تربیت کسی فوجی اکیڈمی سے حاصل نہیں کی تھی اور نہ ان کو گوریلا وار کے لیے افغانستان جیسے پہاڑ اور طویل ترین غارچھپنے کے لیے میسر تھا اور نہ ہی 1920ء سے 1931ء تک وہاں کوئی جدید مواصلاتی رابطے اور موبائل فون میسر تھے لیکن اس کے باوجود وہ اتنے بڑے ملک لیبیا میں وقت کی تین بڑی فوجی طاقت رکھنے والے ممالک اٹلی، فرانس اور برطانیہ سے مقابلہ کر تے رہے۔ ’’عمر مختار‘‘ مسجد کے ایک امام اور استاد نے پورے کفر کی دنیا کو بتا دیا کہ ’’اللہ کے شیروں کو کفر سے مقابلے کے لیے دنیا وی وسائل سے زیادہ اللہ پر بھروسا ہوتا ہے‘‘۔ اکتوبر 1911ء میں اٹلی کے بحری جہاز لیبیا کے ساحلوں پر پہنچے۔ اطالوی بیڑے کے سربراہ فارافیلی نے مطالبہ کیا کہ لیبیا ہتھیار ڈال دے بصورت دیگر شہر تباہ کر دیا جائے گا۔ لیبیائی باشندوں نے شہر خالی کر دیا لیکن اٹلی نے تین دن تک طرابلس پر بمباری کی اور اس پر قبضہ کر لیا۔ یہیں سے اطالوی قابضین اور عمر مختیار کی زیر قیادت لیبیائی فوجوں کے درمیان میں جنگوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ انہیں 16 ستمبر 1931ء کو سرعام پھانسی دے دی گئی کیونکہ اطالوی عدالت کا حکم تھا کہ عمر مختار کو پیروکاروں کے سامنے سزائے موت دی جائے۔
آج ہمارے پاس ایٹمی طاقت اور دنیا کی مضبوط فوج ہونے کا دعویٰ ہے لیکن ہمارے برابر میں لاکھوں مسلمان ایک سال سے مودی کے پنجرے میں بند ہیں۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ فلسطینیوں اور کشمیریوں دونوں کے لیے بہت دور سے اللہ کی مدد آنے والی ہے۔