بھارتی میڈیا مودی کے رنگ میں

258

بھارت میں گزشتہ چھ برس سے انتہا پسند ہندو برسراقتدار ہیں۔ ان کے اقتدار سے پہلے بھی انتہا پسندی ہی بھارت میں اقتدار میں تھی۔ بس فرق صرف انتہا پسند جماعت اور معتدل نام والی جماعت کا ہے ورنہ اپنی نہاد میں سب ایک ہیں لیکن بی جے پی کے مسلسل اقتدار میں رہنے کا نقصان یہ بھی ہوا کہ بھارتی میڈیا میں جو تھوڑی بہت آزادی کبھی ہوا کرتی تھی وہ سرے سے غائب ہوتی جارہی ہے اور بھارتی میڈیا نریندر مودی کے رنگ میں اس سے بھی زیادہ رنگ گیا ہے۔ میڈیا کے تعصب کا حال اس قدر بُرا ہے کہ بڑی ڈھٹائی سے مسلمانوں کے خلاف مہم چلائی جاتی ہے۔ پہلے تو کبھی دونوں طرف کا حال پیش کیا جاتا تھا لیکن اب تو خبروں کا انداز، ان کی تعمیر اور سرخیاں بھی نہایت زہریلی ہوتی ہیں۔ صرف گائو رکھشا کے نام پر سیاسی کارکنوں نے درجنوں مسلمانوں کو مار ڈالا لیکن میڈیا نے کہیں بھی ان دعوئوں کی تصدیق کی کوشش نہیں کی بلکہ جو دعویٰ انتہا پسندوں نے کیا اسی طرح وہ دعویٰ خبر بن گیا، یعنی یہ کہنے کے بجائے کہ فلاں شہر میں ایک نوجوان کو ہجوم نے قتل کردیا اس نوجوان پر الزام تھا کہ اس نے گائے کا گوشت کھایا ہے۔ اس کے بجائے یہ کہا جاتا ہے کہ گائو ہتھیا میں ملوث ایک اور مسلم نوجوان گائو کے رکھوالوں کے ہاتھ لگ گیا۔ بہت شور مچاتا رہا لیکن گائے کے رکھوالوں نے ایک نہ مانی اور گئو ہتھیا کرنے والا مر گیا۔ یہی میڈیا عالمی وبا پھیلنے کے حوالے سے مساجد اور تبلیغی جماعت کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ یہ کام تو پاکستانی میڈیا نے بھی خوب کیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ مسجد کے خلاف زہر میں مقابلہ ہے اور پاکستان اس میں آگے ہے۔ آج کل بھارتی مندروں میں اس وبا کی رفتار بڑھ گئی ہے لیکن جس طرح سیکولر ازم کا نام جپنے والی جماعت خاموش ہے اسی طرح مساجد میں مسلمانوں کے اجتماع، تراویح اور عید کے اجتماع پر تشویش پھیلانے، نفرت انگیز رپورٹیں دینے والا بھارتی میڈیا خاموش بیٹھا ہے۔ مندروں میں وائرس پھیلنے کی کوئی خبر نشر نہیں کی جارہی۔ حتیٰ کہ رام مندر کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں مودی نے وائرس سے متاثرہ شخص سے ہاتھ ملایا اور متعصب بھارتی میڈیا اس خبر کو بھی دبا گیا۔ انتہا پسندوں کے اقتدار میں طوالت کا یہ نقصان ضرور ہوا ہے کہ بھارت میں رہی سہی صحافت بھی انتہا پسند ہوگئی ہے۔ اسی طرح بھارت میں مسلمانوں کو مذہب کی تبدیلی پر اب بھی مجبور کیا جاتا ہے بس طریقے بدل گئے ہیں۔ بی جے پی کی رہنما شکنتلا دیوی مسلمان لڑکیوں کو دھوکے سے ہندو لڑکوں کے ساتھ شادی کے بعد مذہب تبدیل کرانے میں اہم وبنیادی کردار ادا کررہی ہے۔ 7 اگست کو لاپتا ہونے والی مسلمان لڑکی جو علی گڑھ سے تعلق رکھتی ہے ایک ہندو لڑکے کے ساتھ مرضی کی شادی کرنے کا اعلان کرتی ہوئی سامنے آئی۔ لڑکی کے گھر والوں نے الزام لگایا ہے کہ ان کی بیٹی شکنتلا کی گاڑی میں پریس کانفرنس کے لیے آئی تھی۔ دراصل یہ تنہا شکنتلا بھارتی رکن پارلیمنٹ نہیں ہے بلکہ یہ ایک گروہ ہے اور مسلمانوں کا مذہب تبدیل کرنے کے نت نئے ہتھکنڈے اختیار کیے جارہے ہیں اور ہندو متعصب میڈیا اسے بھی مسلمان مخالف رنگ دیتا ہے۔ پاکستان میں تو پسند کی شادی کرنے پر لڑکی لڑکے دونوں کو قتل کردیا جاتا ہے۔ پولیس اور عدالت قاتلوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ البتہ میڈیا میں رپورٹیں آجاتی ہیں لیکن بھارت میں تو یکطرفہ ہوا چلی ہے۔ کشمیر، مسلمان اور اقلیتوں کے خلاف میڈیا بھارتی حکمرانوں کی تلوار بنا ہوا ہے۔ جب میڈیا اس قدر جانبدارانہ رویہ اختیار کرے تو اصل نقصان اس ملک کا ہوتا ہے، اس کا نوٹس تو بھارتی سیاستدانوں کو لینا چاہیے۔ پاکستان میں بھی یہی بھارتی میڈیا اثر انداز ہوتا ہے اور نت نئے ایشوز اٹھاتا رہتا ہے اور ہمارا میڈیا ان کی اٹھائی ہوئی لہروں میں بہہ جاتا ہے بلکہ ایسا بہتا ہے کہ لگتا ہے کہ یہی بھارتی میڈیا ہے۔ بھارتی حکمرانوں کے رنگ میں رنگے ہوئے متعصب میڈیا کا اگر بھارت کے سنجیدہ سیاستدانوں نے نوٹس نہ لیا تو ان کا حشر بھی امریکا جیسا ہوگا جس کے میڈیا نے مسلمانوں کے خلاف اندھا دھند متعصبانہ رپورٹس جاری کیں۔ خصوصاً امریکی ٹی وی چینلز اس معاملے میں بہت آگے رہے جس کے نتیجے میں امریکی نفسیاتی مریض بن گئے۔ جگہ جگہ فائرنگ کے واقعات شروع ہوگئے ہیں، اس میڈیا نے پوری دنیا کے عیسائیوں کو نفسیاتی مریض بنادیا ہے۔ یہود تو پہلے ہی مسلمانوں کے دشمن تھے، عیسائیوں میں تہذیب، اخلاقیات، انسانیت کے درس کے باوجود مسلمانوں کے معاملے میں تعصب ہی پایا جاتا ہے۔ اور اب اگر بھارت نے اس صورت حال کو کنٹرول نہیں کیا تو اس کو بھی جلد یا بدیر گائو ہتھیا کا جواب اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں ملے گا اور متعصبانہ پالیسیوں کا نقصان بھی بھارت کو ہوگا جو پہلے ہی کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہونے کو تیار ہے۔