’’ہاشمی صاحب! کی بیٹھک سے اُٹھتی باتیں‘‘

445

ہاشمی صاحب! دریائے دھرم پترہ کے بارے میں بہت تفصیل سے بتارہے تھے کہ اس دریا کا پانی اگر میٹھا نہ ہوتا تو یہ ایک بڑے سمندر کی شکل میں دنیا کے سامنے آتا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دریا دراصل دنیا میں موجود متعدد سمندروں سے لمبا چوڑا اور گہرا ہے۔ میرے معلوم کرنے پر انہوں نے بتایا کہ بحیرۂ قزوین جسے کیپسین سی بھی کہتے ہیں اور ’’بحیرہ اسود‘‘ بھی دریائے دھرم پترہ سے چھوٹے ہوں گے۔ یہ گفتگو ہاشمی صاحب مرحوم اور میرے درمیان 7 جولائی 2020ء کو ہونے والے بیٹھک کی تھی۔ انہوں نے ایک مرتبہ اپنے گھر کے سامنے سے صبح گزرتے ہوئے دیکھ لیا اور ان کے حکم پر گزشتہ دو سال سے ہر ماہ یہ بیٹھک ہوتی رہی۔ جس میں ان کا وسیع علم سامنے آتا تھا۔
اب تک ہاشمی صاحب کے بارے میں جو مضامین میری نظر سے گزرے ہیں ان میں ان کی اردو اور عربی ادب میں نمایاں برتری کو بیان کیا گیا ہے جبکہ ان کے دیگر علوم کے بارے میں بہت کم بیان کیا گی تو یہ تاثر اُبھر کر سامنے آیا کہ وہ صرف اردو، عربی، فارسی اور سنسکرت پر عبور رکھتے تھے یہ درست ہے لیکن میری ان کے ساتھ بیٹھک سے معلوم ہوا کہ ہاشمی صاحب علم تاریخ کے مثبت اور منفی پہلوئوں سے بہت اچھی طرح واقف تھے۔ ان کہنا تھا کہ ایک ایسے موقع پر جب کسی شخص کے بارے میں لکھا جائے تو اس شخصیت کے بارے میں تحریر سے قبل معلوم کیا جانا ضروری ہے۔ ہاشمی صاحب کو اس پر بہت دسترس حاصل تھی ان کو پہلی مرتبہ جسارت کے سابق ایڈیٹر صلاح الدین کی خدمات پر دو طالبات کی پی ایچ ڈی مقالے کی کتابی شکل میں اشاعت کی تقریب رونمائی پر گفتگو کرتے ہوئے سنا۔ انہوں نے اس تقریب میں صلاح الدین کے بہت سارے پہلوئوں پر نظر ڈالتے ہوئے بتایا کہ شخصیات پر چھپنے والی کتب کے ایڈیشن زیادہ سے زیادہ دو مرتبہ مشکل ہی سے چھپتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس طرح کی تحریروں میں مثبت کے ساتھ شخصیت کے منفی پہلوئوں کو بھی اُجاگر کیا جائے تاکہ اس شخصیت کے بارے میں پڑھنے والوں کو مکمل معلومات مل سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی شخصیت کے بارے میں مکمل معلومات اسی صورت میں سامنے لائی جاسکتی ہیں جب اس شخصیت کے مثبت اور منفی پہلووں کو عوام کے سامنے رکھا جائے۔ اس کے علاوہ تاریخ کے علم کے اور بھی بہت سارے گوشوں سے ہاشمی صاحب واقف تھے اور ان کے شاگردوں کو اس بارے میں بہت کم علم ہوگا۔ ان کا دوسرا پسندیدہ مضمون جغرافیہ تھا۔ وہ ملکوں، علاقوں اور بڑے بڑے صحرائوں، سمندروں، دریائوں، پہاڑوں اور ان سب جگہوں پر بسنے والے انسانوں کے رہن سہن اور ان کی روایات، تہذیب و تمدن کے بارے میں بہت وسیع علم رکھتے تھے۔ بنگلادیش میں ’’دھرم پترہ‘‘ کے علاوہ بھی ہاشمی صاحب وہاں کی تہذیب و تمدن اور مختلف شہروں میں بولی جانے والی زبانوں اور ان کی آبادیوں میں ہونے والے تغیرات کے بارے میں بہت معلومات رکھتے تھے اور وقت گزرنے کے ساتھ اس میں اضافہ کرنے پر بھی پوری توجہ مرکوز رکھتے تھے اور اگر اس سلسلے میں ان کو نئی معلومات ملتیں تو وہ اس کو بہت توجہ سے سنتے اور اس کو یاد کرنے کی کوشش بھی کرتے تھے۔
جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ ہاشمی صاحب کا عملاً تعلق اردو ادب سے رہا ہے لیکن ان کے تجارتی اور اس پر تنقیدی تبصرے اور خاص طور پر اداریہ بہت کمال کے ہوتے تھے اور اس کے لیے وہ تازہ اعداد و شمار پر توجہ مرکوز رکھتے تھے۔ لیکن ان کو ایک معیشت دان کے طور پر بہت کم لو گ جانتے تھے۔ معیشت پر لکھنے کے لیے وہ کرنسی مارکیٹ، اسٹاک ایکس چینج میں ہونے والی تبدیلی اور قوانین کے بارے میں معلومات کو ’’اپ ڈیٹ‘‘ کرتے رہتے تھے۔ اس کے علاوہ ملکی بجٹ اور اقتصادی صورت حال پر بھی ہاشمی صاحب بہت گہری نظر رکھتے اور ان موضوعات پر جسارت کے قارئین کو ان کے اداریے اور مضامین اکثر پڑھنے کو ملتے رہتے ہیں۔ ان کو اس با ت کی ہمیشہ فکر رہتی تھی کہ کشمیریوں پر ہونے والے مظالم میں کب کمی آئے گی اور اس کے لیے ہر طرح کے مضامین کو بہت زیادہ اچھا بنانے کی ہمیشہ کوشش کرتے رہے۔ بین الاقوامی اُمور ان کا پسندیدہ مضمون تھا انہوں نے بہت پہلے یہ بتادیا تھا اب اسرائیل کو تسلیم کرنے کے سوا عرب مسلم ممالک کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے اس کی وجہ وہ یہ بتاتے تھے کہ عرب مسلمان حکمرانوں کو اپنے اقتدار بچانے کے سوا اور کوئی دوسرا کام نہیں ہے یہ بات تو جسارت میں ان کے ساتھ کام کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم ہوگی کہ ہاشمی صاحب اپنے اسٹاف سے بہت کم ناراض ہوتے اور اگر کوئی بہت زیادہ غصے میں بھی ان کے سامنے چلا جائے تو وہ اس کو سمجھا کر ٹھنڈا کردیتے تھے اور اس کی وجہ یہ بتاتے تھے کہ جب کوئی شخص غصے میں ہوتا ہے تو اس کے سوچنے سمجھنے اور غور کرنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ انسان ہر چیز پر اپنی رائے کو حتمی سمجھنے لگتا ہے لیکن ہاشمی صاحب علم سمیٹنے اور پھیلانے کا کام کرتے تھے اس لیے علم کے پیاسوں کو جب بھی پیاس محسوس ہوگی۔ ہاشمی صاحب کو یاد کیے بغیر پیاس کا بجھنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوگا۔