کہتے ہیں شوق کا کوئی مول نہیں ہوتا مگر بعض شوق ایسے عجیب ہوتے ہیں کہ دیکھنے والا حیرت کی تصویر بن جاتا ہے۔ اب بھلا یہ بھی کوئی شوق ہے کہ دوسروں کے چبائے ہوئے لقموں کو مزے لے کر چبایا جائے۔ پہلے یہ شوق شاعروں کو ہوا کرتا تھا۔ وہ دوسروں کے کہے ہوئے اشعار اپنے نام سے سنا کر داد و تحسین سمیٹا کرتے تھے۔ بعد میں معلوم ہوتا کہ محترم نے جن اشعار کو اپنے نام سے منسوب کیا ہے وہ تو سرقہ ہیں۔ مگر ان کو اس کی کوئی پروا نہیں ہوا کرتی تھی، بڑی دیدہ دلیری سے کہا کرتے تھے کہ توارد ہونا کوئی عیب کی بات نہیں یہ تو غالب جیسے شعرا کے ہاں بھی ملتا ہے۔ مگر اب یہ وبا سیاستدانوں میں بھی کورونا وائرس کی طرح پھیل گئی ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے نواب شاہ کا نام بے نظیر رکھنا چاہا تو نواب فیملی نے کہا یہ شہر ان کی ذاتی زمین پر آباد ہے اس کا نام تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ آپ کوئی دوسرا شہر بے نظیر کے نام سے تعمیر کریں۔ زرداری نے نواب صادق علی ایسا ہی شہر بنانے کا اعلان کردیا مگر اعلان کرنا اور اعلان پر عمل کرنا دو مختلف باتیں ہیں۔ یوں یہ معاملہ اخبارات کی فائلوں میں دفن ہوگیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ لاہور کے قریب لاہور جیسا ایک شہر بنائیں گے موصوف نے شہر پر خرچ ہونے والی لاگت اور بنائے جانے والے گھروں کی تعداد کا بھی اعلان فرما دیا ہے۔ لگتا ہے عمران خان کے سیاسی مرشد نے یہ باور کرا دیا ہے کہ عوام کی یادداشت بہت کمزور ہے۔ دوسرا اعلان یا منصوبہ سن کر پہلااعلان یا پہلا منصوبہ بھول جاتے ہیں۔ یوں سیاست دانوں سیاسی دکان داری چلتی رہتی ہے۔
واجب الاحترام چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ماحولیاتی آلودگی سے متعلق اپنے ریماکس میں کہا ہے کہ ریاست عوام کی کوئی خدمت نہیں کررہی ہے وہ سب کچھ خواص کے لیے کرتی ہے ساری سہولتیں اور مراعات بڑوں کے لیے ہیں۔ عام آدمی کے لیے کچھ نہیں یاں بااثر افراد کے لیے کوئی قانون نہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف صاحب کا بیان سر آنکھوں پر مگر اس معاملے میں ریاست کا کیا قصور ہے؟ حکومتیں ریاست کو خانہ زاد سمجھتی ہیں۔ اور عدلیہ اس معاملے میں خاموش تماشائی بنی رہتی ہیں۔ حالانکہ ریاست ایک دائمی ادارہ ہے۔ اور حکومتیں تو چند سال کے لیے آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایسا کوئی میکنیزم ہی نہیں جو ریاست کو تحفظ فراہم کرے۔ ساری دنیا کی عدالتیں ایسے مقدمات کو جن کا قانون کی کتب میں ذکر نہیں ہوتا مگر جج اور جسٹس صاحبان اپنے دانش کے سہارے ان کا فیصلہ سنا دیتے ہیں اور کوئی وکیل اس پر اعتراض کی بوچھاڑ نہیں کرتا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہماری حکومتیں ریاست پر حاوی کیوں ہو جاتیں ہیں۔ دنیا بھر کی عدالتیں ایسے مقدمات جو عدالتوں کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے اجتہاد کرتی ہیں۔ ہماری عدالتیں اس فریضے سے غفلت کی مرتکب کیوں ہوتی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خا نے لاہور کے قریب لاہور جیسا شہر آباد کرنے کا اعلان کیا ہے بقول اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس یہ شہر خواص کے لیے بنایا جائے گا۔ اور عوام کی پہنچ سے دور رہے گا۔ ہماری حکومتیں ساری سہولتیں اور تمام مراعات خواص ہی کے لیے کیوں مختص کرتی ہیں اور عدلیہ جو از خود نوٹس کی مہارت میں عالمی شہرت رکھتی ہے سب کچھ دیکھتی رہتی ہے حالانکہ ایسے معاملات میں نوٹس لینا اس کی ذمے داری ہے۔ ہماری تمام ہائی کورٹس بارہا یہ کہہ چکی ہیںکہ حکومتیں اپنی ذمے داری نبھائے کے بجائے کرپشن کرپشن کھیل رہی ہیں۔ حکومت بنانے سے قبل عمران خان کو ہر سیاست دان چور، اور ہر آفیسر لٹیرا دکھائی دیتا تھا۔ مگر جب سے وہ برسر اقتدار آئے ہیں۔ بے روزگاری، مہنگائی اور کرپشن کا دور دورہ ہے۔ ہر وہ شخص جو ان کے حلقہ احباب میں شامل ہے اس کی کرپشن کی ساری دنیا گواہ ہے۔