بات چل نکلی ہے (آخری قسط)

301

وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ اب چونکہ برف پگھل رہی ہے، لہٰذا وہ توقع کرتے ہیں کہ مزید عرب اور مسلم ممالک متحدہ عرب امارات کی پیروی کریں گے۔ اسرائیل کے وزیر برائے انٹیلی جنس کا کہنا ہے کہ بحرین اور عمان اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو باضابطہ بنانے کے لیے متحدہ عرب امارات کی پیروی کرنے والے اگلے دو خلیجی ممالک ہوں گے۔ افریقی ممالک میں سرفہرست سوڈان ہے۔ بحرین اور عمان نے امریکی سرپرستی میں کیے جانے والے معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو گزشتہ دو برسوں کے دوران عمان اور سوڈان کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ اکتوبر 2018 میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو عمان کا دورہ کرچکے ہیں۔ بحرین سعودی عرب کا انتہائی قریبی اتحادی ہے۔ بحرین نے اب تک اسرائیل، امارات معاہدے پر اپنی رائے کا اظہار نہیں کیا ہے۔ بحرین نے 2019 میں ہونے والی ایک سیکورٹی کانفرنس میں ایک اسرائیلی عہدے دار کی میزبانی کی تھی۔ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے عرب امارات اسرائیل معاہدے کے معماروں کو مبارک دیتے ہوئے کہا ہے اس سے مشرق وسطیٰ میں امن لانے میں مدد ملے گی۔ اردن نے معاہدے کی نہ مخالفت کی ہے نہ حمایت۔ وزیرخارجہ ایمن الصفدی کا کہنا ہے کہ امن معاہدے کی افادیت کا انحصار اسرائیل کے اقدامات پر ہے۔ سعودی عرب نے اس پیش رفت پر ابھی کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے امارات اور امریکا سے قریبی تعلقات ہیں۔ ان کے دور اقتدار میں سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات بھی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل اپنے ایک عظیم منصوبے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ عربوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا مرحلہ عبور کرلیا ہے۔
عرب ملک جن خدشات کی بنا پر اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کر رہے ہیں، مسئلہ فلسطین کے حوالے سے ان میں ایک بھی عنصر پاکستان کے لیے قائد اعظم کے طے کردہ اصولی موقف سے انحراف کا جواز نہیں بن سکتا۔ قائد اعظم نے اسرائیل کے بارے میں کہا تھا ’’یہ امت کے قلب میں خنجر گھسایا گیا ہے۔ یہ ایک ناجائز ریاست ہے جسے پاکستان کبھی تسلیم نہیں کرے گا‘‘۔ تسلیم نہ کیے جانے کے باوجود ان دو ممالک کے تعلقات مختلف ادوار میں بدلتے رہے ہیں۔ متعدد مواقع پر پاکستان نے عالمی سطح پر اسرائیل کے خلاف جارحانہ رویہ اپنایا۔ پاکستان کی ایٹمی صلاحیتوں کو اسرائیل نے ہمیشہ اپنے لیے خطرہ تصور کیا ہے۔ بارہا ایسی خبریں آئیں کہ پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر اسرائیل نے حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ تاہم جنرل ضیا الحق کے دور میں سوویت افغان جنگ کے دوران پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تال میل پیدا ہوا۔
رابرٹ فسک اپنی مشہو زمانہ کتاب ’تہذیبوں کی عالمی جنگ‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ پاکستان اسرائیل سے مختلف ادوار میں اسلحے کی خریداری کرتا رہا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری اپنی کتاب ’نیدر ہاک نار اے ڈوو‘ میں پاکستان، ہندوستان تناؤ کے پس منظر میں اسرائیلی وزیر خارجہ سلوون شیلون سے استنبول میں ہونے والی خفیہ ملاقات کے بارے میں تحریر کرتے ہیں کہ پاکستان کو اسرائیل بھارت دفاعی گٹھ جوڑ اور اسرائیل کے جدید ہتھیاروں سے خطرہ تھا۔ دوسری جانب اسرائیل بھی پاکستان کی جدید میزائلوں کی رینج سے خائف تھا۔ پاکستان علاقائی تناظر میں اسرائیل سے رابطے کی اہمیت کو سمجھ رہا تھا جسے برادر اسلامی ملک ترکی نے بھانپا اور خفیہ ملاقات کے لیے موقع اور جگہ فراہم کی۔ استنبول میں اسرائیل اور پاکستانی وزرِائے خارجہ کی ملاقات ہوئی۔ قصوری صاحب لکھتے ہیں کہ اسرائیلی وزیر خارجہ نے چھوٹتے ہی کہا کہ پاکستان فلسطین سے زیادہ فلسطین کا حامی کیوں ہے۔ وہ اپنی کتاب میں مزید تحریر کرتے ہیں کہ پاکستان اور اسرائیل کے مابین مختلف ادوار میں خفیہ تعلقات رہے ہیں مثلاً جنرل ضیا الحق کے دور میں پاکستان اور اسرائیل کے مابین انٹیلی جنس تعاون قائم رہا۔ خصوصاً مجاہدین کی استعداد بڑھانے کے لیے سی آئی اے افغان پائپ لائن تعاون موجود تھا۔ پاکستان نے تاحال اسرائیل عرب امارات معاہدے پر کسی خاص موقف کا اظہار نہیں کیا تاہم حالیہ فیصلے کے بعد پاکستان میں صہیونی ریاست کو تسلیم کرنے کا مشورہ دینے والوں کے دل خوشی سے کھل اٹھے ہیں۔
ایران کے بارے میں اسرائیل کا رویہ نظر انداز کرنے کا ہے حالانکہ اسرائیل ہمیشہ ایران کی دھمکیوں کی زد پر رہتا ہے۔ وہ چھوٹے چھوٹے کمزور عرب ممالک جو موثر یا غیر موثر دفاعی بندو بست سے محروم ہیں اور اسرائیل کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ان کے بارے میں تو اسرائیل میں فکر مندی اور تشویش پائی جاتی ہے وہ انہیں دھمکیاں دے رہا ہے، حملے کررہا ہے یا پھر امن معاہدے کررہا ہے لیکن ایران سے لاحق خطرات کے بارے میں اسرائیل کسی خاص تشویش اور فکر مندی کا اظہار نہیںکرتا۔ ایران نیتن یاہو کی ترجیح کیوں نہیں ہے؟ ایک جواز یہ پیش کیا جاسکتا ہے کہ وہ بیک وقت دونوں محاذوں پر اپنی توجہ مرکوز نہیں کرسکتے یا پھر توجہ مرکوز نہ کرنے کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہ ایران ہی ہے جو عرب ممالک کو اپنے خوف میں مبتلا کرکے اسرائیل کی سمت دھکیل رہا ہے اور انہیں اسرائیل کے لیے لقمہ تر بنارہا ہے۔ ایران عراق جنگ کے دوران انیس سو اسی سے تراسی تک ایران اسرائیل سے ہتھیار خریدتا رہا ہے۔
اس سارے قصے میں نقصان فلسطینیوںکا ہوا ہے۔ سب کچھ ان کا نام لے کر ہورہا ہے، مگر ان کے پلے کچھ نہیں آرہا۔ دنیا بھر میں پھیلے فلسطینی مہاجرین کی وطن واپسی ممکن ہو سکی اور نہ ان کی ریاست کو عالمی سطح پر پزیرائی، شناخت اور اعتراف حاصل ہوا۔ انہیں روزانہ کی بنیادوں پر ہونے والے اسرائیلی طیاروں کی بمباری سے نجات مل سکی نہ زندگی ان پر آسان ہوسکی۔ فلسطینی عوام کو امداد میسر ہے اور نہ دیگر سہولتیں۔ فلسطینیوں کو آج کچھ بھی میسر نہیں۔ دنیا میں کوئی ان کا دوست نہیں لیکن پھر بھی اسرائیل کا ظلم ہے کہ رکنے میں نہیں آرہا۔ منظم طور پر ان کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسرائیل ایسا کیوں کررہا ہے؟ اس کے کیا مقا صد ہیں؟
صہیونی عیسائی تنظیمیں چھ نکاتی سیاسی ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں۔
1۔ یہودی ہی خدا کی سب سے چہیتی اور برگزیدہ قوم ہے۔ اس لیے ہر عیسائی کو ان کی حمایت و سرپرستی کرنی چاہیے۔ 2۔ عظیم اسرائیل کی سرحدیں دریائے نیل (مصر) تا دریائے فرات (عراق) پھیلی ہوں گی لہٰذا تمام عیسائیوں کو یہ مملکت قائم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ 3۔ دریائے نیل سے دریائے فرات تک پھیلی اسرائیلی مملکت میں صرف یہود آباد ہوں گے لہٰذا فلسطینی عربوں کو ہر حال میں اس مملکت سے نکلنا ہو گا نیز علاقے میں یہودی بستیوں کا پھیلائو جاری رکھا جائے۔ 4۔ یروشلم (بیت المقدس) اسرائیل کا خصوصی اور دائمی دارالحکومت ہے۔ وہ عربوں کو نہیں دیا جا سکتا۔ 5۔ صہیونی عیسائی ان تنظیموں کو دل کھول کر چندہ دیں جو تیسرا معبد ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتی ہیں۔ 6۔ مستقبل میں ’’ہرمجدون‘‘ (آرماگیڈون) یعنی عظیم جنگ ہو گی۔ اسی لیے صہیونی عیسائی اسرائیلی حکومت اور فلسطینیوں کے مابین جاری امن عمل کے شدید مخالف ہیں۔
اسرائیلی یہودی اور صہیونی عیسائی رفتہ رفتہ اپنے اصل مقصد کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ 1۔ گریٹر اسرائیل کا قیام 2۔ تیسرے ہیکل سلیمانی کی تعمیر جو مسجد اقصیٰ اور گنبد صخرہ شہید کرکے ان کی جگہ پر بنایا جائے گا۔ یہود اور صہیونی عیسائیوں کا یہ کوئی معمولی منصوبہ نہیں بلکہ اُسے انجام دینا ان کی مذہبی ذمے داری بن چکی۔ یہ امن معاہدے، عربوں کی فلسطین اور بیت المقدس سے بے نیازی اور ایک ایک کرکے اسرائیل کی گود میں جا گرنا۔ عرب ازخود تباہی اور ہلاکت کی سمت دوڑ رہے ہیں۔ حال اور مستقبل ان کی تباہی سے عبارت نظر آرہا ہے۔ اللہ رحم فرمائے۔ دعا ہی کی جاسکتی ہے۔