ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی
مہر کی شرعی حیثیت
سوال: میرے ایک دوست کا نکاح ہونے جا رہا ہے۔ انھوں نے لڑکی کے لیے سونے کے زیورات (جن کی قیمت ایک لاکھ روپے سے زائد ہیں) اور پوشاک وغیرہ تیار کی ہے۔ لڑکی والے مزید اکیاون (51) ہزار روپے مہر کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
کیا نقد مہر دینا لازمی ہے؟ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔
جواب: نکاح کے موقع پر جن کاموں کی انجام دہی ضروری ہے ان میں سے ایک مہر ادا کرنا بھی ہے۔ مہر سے مراد وہ رقم ہے جو لڑکی کو نکاح کے وقت شوہر کی طرف سے ملتی ہے، یا وہ ادا کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اور عورتوں کو ان کے مہر خوش دلی سے دو‘‘۔ ( النساء)
حدیث میں ہے کہ ایک نوجوان نے اللہ کے رسولؐ کے سامنے ایک عورت سے نکاح کی خواہش ظاہر کی تو آپؐ نے اسے مہر ادا کرنے کی تاکید کی اور فرمایا:
’’کچھ لے کر آؤ، چاہے لوہے کی انگوٹھی ہو‘‘۔ ( بخاری، مسلم)
اللہ کے رسولؐ نے اپنے جتنے نکاح کیے، سب میں مہر ادا کیا۔ آپؐ نے اپنی بیٹی سیدہ فاطمہؓ کا نکاح اپنے چچا زاد بھائی سیدنا علی بن ابی طالبؓ سے کیا تو ان سے مہر دلوایا۔
نکاح کے وقت مہر مقرر نہ ہو تو لڑکی ’مہر مثل‘ کی مستحق قرار پاتی ہے، یعنی مہر کی وہ مقدار جو اس کے خاندان کی دیگر لڑکیوں کی طے ہوئی ہو۔
مہر کا نقدی کی شکل میں ہونا ضروری نہیں ہے۔ منقولہ یا غیر منقولہ کوئی چیز، مثلاً زمین، مکان، دکان، گاڑی، زیورات، کوئی بھی چیز مہر میں دی جا سکتی ہے۔ البتہ یہ بتانا ضروری ہے کہ فلاں چیز مہر میں دی گئی ہے۔
٭…٭…٭
نکاح میں نام کی غلطی
سوال: ایک صاحب کی دو لڑکیاں ہیں: عارفہ (بڑی لڑکی) صالحہ (چھوٹی لڑکی)۔ بڑی لڑکی کا کئی برس قبل نکاح ہوچکا تھا۔ اب چھوٹی لڑکی کا نکاح ہوا، اسی نے ایجاب کیا، اسی کی رخصتی ہوئی، اسی کے ساتھ دولہا نے شب زفاف گزاری۔ غلطی یہ ہوئی کہ نکاح کے وقت وکیل نے چھوٹی لڑکی (صالحہ) کے بجائے بڑی لڑکی (عارفہ) کا نام بتا دیا، دولہا نے اسی نام کے ساتھ قبول کیا، اگلے دن نکاح نامہ دیکھا گیا تو اس پر بڑی لڑکی کا نام لکھا ہوا تھا۔
اس پر درج ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:
کیا یہ نکاح فاسد ہے؟
کیا چھوٹی لڑکی (صالحہ) کا نکاح نہیں ہوا؟
صالحہ کے ساتھ شب باشی کا کیا حکم ہوگا؟
کیا صالحہ کے ساتھ نکاح کے لیے استبراء رحم کی ضرورت ہوگی؟
جواب: نکاح میں اگر لڑکی متعین ہو، مثلاً وہ مجلس نکاح میں موجود ہو اور اس کی طرف سے ایجاب ہو تو اس کے نام میں غلطی سے نکاح فاسد نہیں ہوتا۔ صورتِ مسئولہ میں دو ہی لڑکیاں ہیں۔ بڑی لڑکی شادی شدہ ہے، اس لیے وہ محلِّ نکاح ہو ہی نہیں ہوسکتی، جب کہ نکاح کے وقت لڑکیوں کے باپ، وکیل، نکاح پڑھانے والے، دولہا، دونوں خاندانوں، مجلس نکاح میں شریک تمام لوگوں، ہر ایک کو معلوم تھا کہ نکاح چھوٹی لڑکی کا ہورہا ہے، اس لیے اس نکاح کو درست مانا جائے گا۔ چھوٹی لڑکی (صالحہ) کا ہی نکاح ہوا ہے، چاہے غلطی سے بڑی لڑکی (عارفہ) کا نام لیا گیا ہو۔
شب باشی میں کیا گیا جنسی تعلق حلال ہے۔ استبراء رحم کی ضرورت نہیں۔ صرف نکاح نامے میں نام کی درستی کافی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔
بعض فتاویٰ میں لکھا گیا ہے کہ عقد نکاح کے وقت لڑکی کے نام میں غلطی ہوجائے تو نکاح درست نہیں ہوگا۔ یہ بات علیٰ الاطلاق صحیح نہیں ہے۔ اگر لڑکی متعین ہو تو نام میں غلطی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پھر بھی اگر مقامی سطح پر بعض علما نکاح کو فاسد کہہ رہے ہوں اور دوبارہ نکاح پڑھانے کو ضروری قرار دیتے ہوں تو بہتر ہے کہ از سر نو نکاح کی کارروائی کر لی جائے۔