کراچی کے خلاف ٹرائی اینگل

392

کراچی کا مسئلہ کیا ہے؟ سندھ نے وفاق کی جانب سے کمیٹی کے قیام کے اعلان کے اگلے روز ایسیکمیٹی کے وجود سے انکار کیا ایسا سوچنے والوں کے بارے میں کہا کہ کراچی کو سندھ سے علیحدہ کرنے کا فتور جس کے دماغ میں ہو وہ اسے نکال دے لیکن اگلیروز اسلام آباد میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر سے ملاقات میں وزیراعلیٰ کراچی کے لیے کمیٹی کے قیام پر متفق ہو گئے۔ ہو سکتا ہے انہوں نے وفاق کا فتور نکال دیا ہو یا کسی نے صوبائی حکومت کا… پاکستان حکمران جو کام کرتے ہیں اتنا بوگس انداز میں کرتے ہیں کہ دنیا کو پہلے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ کرنا کیا چاہتے ہیں۔ آج کل کراچی کی محبت میں وفاق، صوبہ سندھ اور ایم کیو ایم کے پیٹ میں اس قدر مروڑ ہو رہا ہے کہ اللہ کی پناہ۔ ایسا لگتا ہے کہ کراچی ان کی سگی اولاد ہے اس کے کسی باشندے کو ذرا بھی نقصان پہنچا تو انہیں دلی تکلیف ہوگی۔ وفاق کراچی کی محبت میں بچھا جا رہا ہے۔ سندھ نے کراچی کے لیے کچھ نہیں کیا وفاق نے کچھ کرنے کا اعلان کر دیا تو حکومت سندھ نے اسے سندھ دھرتی ماں کی تقسیم قرار دے کر وہ جذباتی فضاپیدا کی کہ پورے سندھ میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ لیکن کیا ایسا ہے کہ کراچی کی محبت میں یہ تینوں پارٹیاں دونوں جہاں لٹاکر بیٹھی ہوں… جو الزام صوبہ سندھ وفاق پر لگاتا ہے کہ اسے کراچی کے ریونیو سے دلچسپی ہے۔ وہی الزام وفاق سندھ پر لگاتا ہے اسے کراچی کی ترقی سے نہیں روپیے سے دلچسپی ہے۔ ایک ہی دن میں سندھ حکومت کا یوٹرن بتا رہا ہے کہ مقتدر قوتوں کا کھیل ہے جس سے انکار کرنے کی مجال وفاق میں ہے نہ سندھ حکومت میں باقی آلہ کاروں کو تو جو حکم ملے گا کریں گے۔ اسلام آباد کی فضائوں میں وزیراعلیٰ چھ رکنی کمیٹی پر متفق ہو گئے۔ اجلاس کی خاص بات چیئرمین این ڈی ایم اے کی شرکت تھی۔ کراچی کے عوام بھی پاکستان کے دیگر شہروں کے عوام کی طرح ہیں انہیں کسی سیاسی پارٹی کا کوئی وعدہ یاد نہیں رہتا۔ اسے بار بار ووٹ دیتے ہیں۔ ایم کیو ایم کا معاملہ تو کچھ اور تھا ایک دو بار تو ووٹ دئیے گئے اس کے بعد ووٹ کے معاملات ایم کیو ایم نے خود سنبھال لیے۔ 35 برس ایم کیو ایم نے سندھ کے اس اٹوٹ انگ کو خوب لوٹا جس میں وفاق کی کمیٹی کے آنے یا اس کے کسی وزیر کے کام کرنے پر سندھ حکومت برہم ہے اس پورے 35 برس میں ایم کیو ایم اور پی پی ہی حلیف رہے۔ کراچی میں قتل و غارت۔ ہفتے ہفتے بھر کی ہڑتالیں۔ بوری بند لاشیں۔ صنعتوں کی بندش۔ معیشت کا پہیہ جام۔ حکومت سندھ کو کوئی فکر نہ ہوتی۔ کیونکہ کراچی کو سندھ سے الگ کر کے خون میں نہیں نہلایا جا رہا تھا جو بھی کچھ ہو رہا تھا اٹوٹ انگ میں ہو رہا تھا۔ کیا ساری دنیا نہیں جانتی کہ ایس بی سی اے سے ہونے والی آمدنی کے حصے بڑی ایمانداری کے ساتھ گورنر ہائوس میں ہوتے تھے۔ ایک وزیر ایک بلدیہ کا نمائندہ اور ایک پیپلز پارٹی کا۔ وفاق کا نمائندہ گورنر امانت داری کے ساتھ تینوں کے حصے الگ الگ کرتا رہا۔ بس اصل بات یہ تھی کہ کراچی اٹوٹ انگ تھا اس لیے یہاں 260 افراد کو زندہ جلانے پر کسی کو اعتراض نہیں ہوا۔ کراچی کے 35 ہزار جوان قتل کر دئیے گئے قاتل کراچی کی سب سے بڑی ہمدرد پیپلز پارٹی کے حلیف تھے۔ بس کراچی اٹوٹ انگ تھا اس لیے جو چاہو کر لو… اس دوران وفاق کو کراچی کی کوئی فکر نہیں ہوئی۔ صوبائی حکومت بھی مطمئن تھی اور اس کے حلیف بھی۔ پھر اے این پی میدان میں آ گئی تو اسے بھی حصے دار بنا لیا گیا۔ یہاں تک کہ ایسا لگ رہا تھا کہ وزیر داخلہ رحمن ملک لیاری گینگ وار والوں کو بھی سندھ حکومت کا اتحادی قرار دے دیں گے۔ یہ جو ہنگامہ ہے کراچی کو الگ کیا جا رہا ہے سندھ کی تقسیم ہے وغیرہ یہ سب سیاسی شوشے ہیں۔ اچانک کراچی کی محبت میں یہ کہا جانے لگا کہ یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ کراچی سب سے زیادہ ریونیو دیتا ہے یہ کیوں نہیں کہا جاتا کہ سندھ سب سے زیادہ ریونیو دیتا ہے۔ کہنے کو بات میں وزن ہے کہنا یہی چاہیے تھا لیکن کرنا کیا چاہیے تھا حکومت سندھ اس پر بھی توجہ دے۔ کراچی کی چند سڑکوں کو چمکا کر نئی لائٹس لگا کر اور چند لاکھ کے ناریل کے درخت کروڑوں میں خرید کر لگا دینے کو کراچی کی ترقی قرار دے دیا گیا۔ یہاں اندرونی سڑکیں اور بڑی بڑی سڑکیں کھنڈر بنی رہیں۔ پانی کا نظام تلپٹ ہو گیا۔ اسٹریٹ لائٹس اسٹریٹ کرمنلز کے لیے بند کر کے رکھی جاتی ہیں۔ ملازمتوں میں کراچی کے رہنے والوں کی حق تلفی بلکہ استحصال کون کر رہا ہے؟ وفاق اور سندھ نے کراچی کی آبادی کو پونے تین کروڑ کے بجائے ایک کروڑ ساٹھ لاکھ کیسے بنا دیا۔ کراچی میں دی جانے والی سرکاری ملازمتوں میں دیہی اور شہری کی شرح میں زمین آسمان کا فرق ہو گیا ہے جس کی وجہ سے لسانی اور علاقائی سیاست کرنے والوں کو پھر قوت مل سکتی ہے۔ سندھ حکومت کی یہ منطق بھی مان لیتے ہیں کہ کراچی کو الگ کرنے کی سازش ہو رہی ہے لیکن یہ کیا کہ جب کمیٹی نہیں مان رہے تھے تو کراچی کے ہمدرد بنے ہوئے تھے اب کمیٹی کو تسلیم کرتے ہی سندھ کابینہ نے اپنے اجلاس میں کراچی کے ضلع غربی کو تقسیم کرتے ہوئے ضلع کیماڑی کے نام سے نئے حلقے کی منظوری دے دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی سندھ بورڈ آف ریونیو کو ہدایت کی ہے کہ صوبے میں جہاں زیادہ آبادی اور علاقے ہوں وہاں مزید اضلاع کی تشکیل کے لیے تفصیلی تجاویز پیش کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ کابینہ نے کراچی کے اضلاع کے محکموں میں تبدیلی کی بھی تجویز پیش کی ہے اس کے علاوہ کابینہ نے ایس ایل جی اے میں ترمیم بھی کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ گویا دال میں کچھ نہیں بہت کچھ کالا ہے سندھ حکومت نے کابینہ کے اجلاس میں اچانک فیصلہ صادر کیا ہے اس کا مطلب یہی لگتا ہے کہ اجلاس میں بحث مباحثہ تو خانہ پری کے لیے فیصلہ توایک روز پہلے آ چکا تھا اور سوشل میڈیا پر خبر گشت کر رہی تھی کہ کراچی میں نیا ضلع بننے والا ہے یہ ضلع کیوں بنایا جا رہا ہے اس کے اصل مقاصد کیا ہیں یہ تو رفتہ رفتہ پتا چلے گا لیکن اصل بات یہ ہے کہ حکومت نے کہا ہے کہ عوام کے بہترین مفاد میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ آج تک کسی حکومت نے عوام کے مفاد کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ عوام کو فائدہ ہوتا ہے یا نہیں اس کا فیصلے کے وقت مد نظر رکھے گئے ’’عوامی مفادات ‘‘سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ایک مرتبہ پھر کمیٹی کی بات کی جائے کمیٹی کے قیام کے ساتھ ہی ایک اعلان دہرایا گیا ہے عوام اس کے لیے 20-08-2020 کی تاریخ یاد رکھیں پچھلے وعدوں اور اعلانات کو تو سب بھول چکے نیا اعلان ہے کہ (۱) کراچی کو صاف پانی فراہم کیا جائے گا (۲) ٹینکر مافیا سے نجات ملے گی (۳) نکاسی آب کا نظام ٹھیک کیا جائے گا (۴) تجاوزات کا خاتمہ ہو گا (۵) سڑکوں کی تعمیر و مرمت ہو گی (۶) نالوں کی صفائی ہو گی (۷) لوکل ٹرین چلے گی۔ اور ائر کنڈیشنڈ بسیں بھی چلیں گی۔ گویا یہ پی ٹی آئی، پی پی پی اور ایم کیو ایم کا کراچی کے لیے منشور ہے۔ کسی کو یاد ہو یا نہیں حال ہی میں صوبائی وزیر ناصر شاہ کی نئی بسوں کے سڑک پر آنے کی خوش خبری والی ویڈیو نے سب کو یاد دلایا کہ وہ تین مرتبہ کراچی میں پانچ سو سات سو اور 6سو بسیں سڑک پر لانے کی بات کر چکے پانچ بسیں بھی نہیں آئیں۔ اب کہاں سے آئیں گی۔ دیکھ لیتے ہیں۔ گھروں پر صاف پانی کا خواب بھی زبردست ہے لوکل ٹرین کی اطلاع بھی ہر مہینے ملتی ہے سڑکوں کی تعمیر و مرمت پر بھی لاکھوں کروڑوں لگتے ہیں لیکن پیج ورک سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا ان وعدوں میں امن و امان کا ذکر نہیں ہے جس کے بغیر تجارت اور صنعت نہیں چل سکتے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کراچی کے ساتھ جو کرنا ہے مل جل کر کرنا ہے یہی تینوں پارٹیوں کا فیصلہ ہے ساتواں ضلع بھی یوں ہی نہیں بنا ہے اب زیادہ سے زیادہ لوگوں کو کھپانا ہے تو زیادہ انتظامی یونٹس بنانے ہوں گے۔ نئے اضلاع میں ملازمتیں کس کو ملیں گی؟