بیشتر عرب ممالک کا اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار

580

عمران خان نے 18اگست کو اسرائیل کے بارے میں جس قدر کھل کر بیان دیا اس نے پاکستان سمیت پورے عالم عرب کو ایک مرتبہ پھر یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ ’’اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ فلسطینیوں کو ہمیشہ کے لیے اسرائیل کے حوالے کر دیا گیا‘‘۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ’’اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطلب ہے کہ کشمیریوں کو ہمیشہ کے لیے بھلادیا جائے‘‘۔ جس سے عربوں نے یہ مطلب لیا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا فلسطینیوں کو یہودیوں آگے ڈال دینے کے مترادف ہے۔ عمران خان کے بیان کے 24گھنٹے کے اندر اندر رائٹرز نے منگل کی شام اطلاع دی جو The Jerusalem post نے بھی چھاپی کہ: Saudi FM Sys No ties With Israel until peace with palestanians
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود نے 20اگست کی شام جرمنی میں بتایا کہ 2002ء میں سعودی عرب کے ’’مرحوم شاہ عبداللہ‘‘ نے عرب امن معاہدے کی شروعات کی تھیں جس پر عمل نہ ہوسکا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب فلسطینیوں سے امن معاہدہ ہونے تک اسرائیل سے سفارتی تعلقات کا کوئی راستہ سعودی عرب سے ہو کر نہیںگزرتا۔ سعودی عرب آج بھی 2002ء میں مرحوم شاہ عبداللہ کے عرب امن منصوبے کے تحت اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن کے قیام کے لیے پرعزم ہے۔ سعودی عرب بستیوں کی تعمیر اور الحاق کی یکطرفہ اسرائیلی پالیسیوں کو ناجائز اور 2 ریاستی حل کے لیے نقصان دہ سمجھتا ہے۔ سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ اسرائیل کے یک طرفہ اقدامات فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان امن کے مواقع میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔ بن فرحان نے صاف صاف کہہ دیا کہ ’’ڈیل آف دی سینچری‘‘ کو تسلیم نہیں کرتے یہ سب کچھ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے اسرائیل کے بارے میں فیصلے سے مکمل یکسانیت رکھتا ہے۔
دوسری جانب The Time’s of Israel کا کہنا ہے کہ:Sudan and Israel say talks underway for deal of normalize tles۔
اے ایف پی اور رائٹرز کی خبر ATR اسرائیلی نیوز چینل پر اس طرح نشر کی گئی ہے کہ: Saudi Arabia say no Israel deal without palestinian peace اس اطلاع کے فوری بعد سوڈان کے بارے میں دوسری خبر جو The Jerusalem Post نے لگائی کہ: Sudanese Foreign Ministry backtracks on call the peace with Israel اسی خبر کو واشنگٹن پوسٹ نے بھی لگایا ہے کہ ’’خرطوم‘‘ تل ابیب مذاکرات فوری طور پر ختم ہوگئے ہیں۔ اس سلسلے میں The Taiwan Times کا کہنا ہے کہ اسرائیل سوڈان سے نہیں HOA ممالک سے معاہدے کررہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ: Israel To Establishs with two HOA nation۔ اس کا مقصد Horn of Afrka ہے۔ جس میں ایک سوڈان ہے اور دوسرا صومالی لینڈ ہے۔ جس کے 3 سے 4 حصے بنادیے گئے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اسرائیل HOA ممالک سے رابطہ کرے تاکہ ڈیل میں آسانی ہوسکے۔ واشنگٹن پوسٹ کا کہنا ہے کہ: Sudan fires FM spokesman ofter the comments on peace with Israel۔
اس کے علاوہ ’’عمان‘‘ نے بھی اپنے وزیر خارجہ کو اسرائیل سے مذاکرات کرنے کی وجہ سے جمعرات کی شب برطرف کر دیا۔ اس پوری صورت حال کو سامنے رکھا جائے تو پتا چلتا کہ ’’سعودی عرب، قطر،ں عمان، سوڈان اور اسی طرح سے دوسرے عرب ممالک بھی اسرائیل سے معاہدے اور اس کو تسلیم کرنے کو ہرگز تیار نہیں ہیں‘‘۔ جمعہ کی صبح موصول ہو نے والی اطلا عات کے مطابق ’’کویت اور تیونس‘‘ جن کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ وہ بہت جلد اسرائیل کو تسلیم کر لیں گے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہے ’’کویت کی جانب سے جاری اعلان میں کہا گیا ہے کویت سب آخر میں اسرائیل کو تسلیم کر گا، اسرائیل کو تسلیم کرنے میں کویت کو کوئی جلدی نہیں ہے‘‘۔ ’’تیونس کے صدر کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میںکہا گیا ہے کہ تیونس فلسطینیوں کی جِدجُہد میں ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ اور تیونس اسرئیل کو تسلیم نہیں کر رہا ہے‘‘۔
عرب کی اس نئی صورت حال کو تیار کرنے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کردار اہم ہے۔ جنہوں نے 16 اگست کو ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ ’’امارات اسرائیل ڈیل‘‘ ابراہم ایکارڈ ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا سیدنا اسحاق ؑ جن کو یہودی نبی تسلیم کرتے ہیں اور سیدنا ابراہیم ؑ جن کو مسلمان نبی مانتے ہیں دونوں بھائیوں کے درمیان یہ معاہدہ ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ مسلمان اور یہودی آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ان کے درمیان ایک معاہدہ ہوچکا ہے لڑائی ختم‘ اس طرح صدر ٹرمپ نے امارات اسرائیل معاہدے کو جس کا ابھی مکمل ہونا باقی ہے کو ایک مذہبی رنگ دے دیا جس کے بعد معاملات نے نیا رخ اختیار کرلیا ہے۔ دوسری جانب ترکی نے فوری طور پر جنرل سیسی کو مذاکرات کی پیشکش کردی ہے اور اس سے کہا ہے کہ وہ لیبیا میں خلیفہ حتفر کی حمایت سے دور ہوجائے اور ترکی اس سے مذاکرات کے ذریعے مسائل اور اختلافات دور کرنے کو تیار ہے۔ اس کے ساتھ ہی ترکی کسی طور پر لیبیا سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہے اور اس نے ’’قبرص‘‘ کو بتایا ہے کہ وہ بحیرۂ روم میں اس کے اور لیبیا کے درمیان راستے میں کسی قسم کی مداخلت نہ کرے ورنہ اس کو بھاری نقصان کا سامنا ہوگا۔
ہم نے اس سے قبل بھی لکھا تھا کہ امریکی صدر نے انتخابات میں کامیابی کے لیے امارات اسرائیل اتحاد کا کھیل کھیلا ہے۔ وہ 3 نومبر 2020ء کو ہونے والے انتخاب میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سعودی عرب، عمان اور سوڈان کے اسرائیل کو سخت جواب کے بعد امارات کا اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان ایک معاہدے کی صورت اختیار کرسکے گا؟ حالات و واقعات امارات اسرائیل اتحاد کے برعکس ہوتے جارہے ہیں اور خدشہ یہی ہے کہ امارات اور اسرائیل کا معاہدہ کاغذوں تک ہی محدود رہے گا۔ سوڈان اور عمان نے صرف اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بیان کے جرم میں اپنی حکومتوں کے وزیر خارجہ کو برطرف کردیا۔ لیکن ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ’’پاکستان اور سعودی عرب کو لڑوانے‘‘ اور تین ماہ قبل قومی اسمبلی میں 1967ء کے پہلے کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا جرم کرتے رہے ہیں لیکن آج بھی وہ وزیر خارجہ ہیں۔ کیا اس طرح بھی ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں یا یہ بھی امریکا کا کمال ہے۔