ڈاکٹر ماہا کی مبینہ خودکشی کیس میں نیا موڑ آ گیا

114

کراچی( آن لائن )ڈاکٹر ماہا کی مبینہ خودکشی کے معاملے میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔پولیس نے پتہ لگا لیا ہے کہ جائے وقوع سے ملنے والے پستول کا لائسنس کس کے نام پر ہے۔بتایا گیا ہے کہ پستول کالائسنس سعد نصیر کے نام پر ہے۔سعد نصیر نے پستول 2010 میں بشیر خان ٹریڈنگ کمپنی سے خریدا تھا۔اسلحہ بیرون ملک سے بلوچستان لایا گیا
تھا۔پولیس نے سعد نصیر کو شامل تفتیش کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے تلاش شروع کر دی ہے جب کہ سعید نصیرکے ڈاکٹر ماہا سے رابط کے حوالے سے بھی تفتیش کا آغاز کر دیا گیا ہے کہ آیا انہوں نے ماہا کو پستول کیسے دیا اور کیوں دیا۔پولیس نے ماہا علی کے قریبی دوست جنید کا بیان بھی قلمبند کر دیا ہے۔جنید نامی نوجوان نے تفتیشی حکام کو اپنا بیان قلمبند کراتے ہوئے بتایا کہ ڈاکٹر ماہا علی کے ساتھ 4 سال سے مراسم تھے اور ہم دونوں جلد شادی کرنے والے تھے۔انہوں نے مزید بتایا کہ ماہا علی کا اپنے والدین سے اکثرجھگڑارہتا تھا،وہ گھریلو پریشانیوں کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار رہتی تھی۔جنید نے یہ بھی انکشاف کیا کہ جس دن ماہا نے خودکشی کی اس دن مجھے گھر آنے سے منع کیا۔ماہا علی کو پک اینڈ ڈراپ کی سہولت دیتارہا ہوں۔ جب کہ کراچی کے علاقے ڈیفنس گزری میں گزشتہ روز مبینہ خودکشی کرنے والی ڈاکٹر ماہا کی میڈیکو لیگل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر ماہا کو سر میں بائیں جانب سے گولی لگی جو دائیں جانب سے باہر نکل گئی۔میڈیکولیگل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر ماہا زخمی حالت میں اسپتال لائی گئی تھیں، انہیں اسپتال ان کے والد آصف علی شاہ لے کر آئے تھے۔
ڈاکٹر ماہا کیس