کراچی کی ضرورت کمیٹی نہیں دیانتدار قیادت ہے

267

ابھی کراچی کے لیے 6 رکنی کمیٹی کے دعوئوں اور وعدوں کی روشنائی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ کراچی میں تیز بارش کمیٹی سمیت شہر کے کئی علاقوں کو بہا کر لے گئی۔ کمیٹی کا نام تو بر سبیل تذکرہ لیا جارہا ہے کیونکہ انہوں نے دعوے ہی ایسے کیے تھے کہ کمیٹی مل کر کراچی کو جادو کی چھڑی کے ذریعے سنوار دے گی۔ کراچی میں جب بھی بارش ہوگی کسی نہ کسی علاقے میں ایسی ہی صورت حال پیش آئے گی جیسی جمعے کے روز پیش آئی۔ نارتھ کراچی، سرجانی اور دیگر کئی علاقے۔ شمالی ناظم آباد کی سڑکیں، شارع فیصل، یونیورسٹی روڈ، بلدیہ ٹائون، اولڈ سٹی ایریا، فیڈرل بی ایریا، گلستان جوہر دیکھتے ہی دیکھتے تالاب بن گئے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ جو کام کیا جارہا ہے شاخیں چھانٹنے کی طرح کیا جارہا ہے۔ مسئلے کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش ہے نہ ارادہ۔ کراچی ایک ایسا شہر ہے کہ برصغیر میں اس جیسا شہر نہیں تھا جہاں پانی، سڑک، سیوریج، صفائی، اسپتالوں، بجلی اور سڑکوں پر روشنیوں کا انتظام اور امن وامان کا بہترین نظام تھا۔ اس نظام کو جمہوری حکومتوں نے بھی چلایا اور بلدیاتی نمائندوں اور فوجیوں نے بھی خوب چلایا لیکن جب سے کراچی کے اصل نمائندوں کو بے دخل کرکے مصنوعی نمائندوں کو مسلط کرنے کا طریقہ اختیار کیا گیا۔ اس شہر کی تباہی شروع ہوگئی۔ 1983ء اور 1987ء میں جماعت اسلامی کے میئر عبدالستار افغانی نے جو کام کیے وہ بہترین تھے ان کا اور ان کی ٹیم کا وژن تھا کہ مستقبل پر نظر رکھیں۔ ان کی تمام منصوبہ بندی مستقبل کے کراچی کے لیے تھی۔ پانی کا منصوبہ ہو یا سڑکوں اور بسوں کا نظام یا سیوریج شہر کی منصوبہ بندی بس 20برس آگے کی تھی لیکن جب سرکار کے مسلط کردہ لوگ آئے تو انہوں نے اس شہر کے تمام وسائل کو بے دردی سے لوٹا منصوبے تباہ کیے۔ بھتوں اور بوری بند لاشوں کا رواج عام ہوا، ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوا اور کراچی کے بلدیاتی مسائل سے توجہ ہٹالی گئی۔ پھر وہی ہوا جو ایسے کاموں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ واٹر بورڈ میں سیاسی بلکہ جرائم پیشہ افراد کی بھرتیاں ہوئیں۔ لوگ کام نہیں کرتے تھے۔ تنخواہیں لیتے اور پارٹی کے لیے جھگڑے فساد کرتے۔ اب تک ایم کیو ایم لندن سے تعلق کے الزام میں بلدیاتی اداروں کے لوگ پکڑے جارہے ہیں۔ لیکن کراچی کو ایک مرتبہ پھر نعمت اللہ خان جیسے سٹی ناظم ملے۔ انہوں نے اور ان کی ٹیم نے پھر کراچی کے لیے مستقبل اور حال کے منصوبے بنائے، کراچی کو ایک بار پھر چمکتا دمکتا سرسبز و شاداب شہر بنایا۔ روشنیاں اور رونقیں بحال ہوئیں۔ تعلیمی ادارے، صحت کے مراکز، کھیل کے میدان، پارکس سب کچھ دیا لیکن ایک بار پھر جرنیل کی آگ بھڑکی اور جنرل پرویز مشرف نے ایم کیو ایم کو زندہ کردیا۔ زبردستی سٹی ناظم لایا گیا، الخدمت کو باہر کیا گیا اور نتائج آج پھر سامنے ہیں۔ لہٰذا کراچی کا مسئلہ موجودہ تینوں گروپ، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی… کوئی حل نہیں کرسکتا۔ اس شہر کی اصل قیادت جماعت اسلامی سے اس کے لوگ منتخب نہ ہونے کے باوجود ہر شعبے میں بے لوث خدمات انجام دے رہے ہیں۔ شہر کو ٹھیک کرنا ہے تو کمیٹیاں بنا کر اپنے لوگ مسلط کرنے اور نئے ضلع بنا کر شہر کو ٹھیک نہیں کیا جاسکتا۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے بھی یہی مطالبہ کیا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں۔ سیاسی بنیاد پر شہر کی تقسیم قبول نہیں کی جائے گی۔ اور اصل معاملہ بھی یہی ہے فوری انتخابات اور شفاف بھی۔ اگر منصفانہ آزادانہ انتخاب نہ ہوا تو پھر کسی کو مسلط کیا جائے گا پھر کوئی آر ٹی ایس استعمال ہوگا اور شہر کو مزید 20 سال پیچھے پھینک دیا جائے گا۔ کراچی کے مسائل کی تفصیل میں جانے، پانی سڑکوں اور گھروں میں داخل ہوجائے یا گٹر لائنوں، نالوں اور سالڈ ویسٹ وغیرہ پر بحث کے بجائے صرف آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرائے جائیں، پھر دیکھیں کہ کراچی کا مسئلہ 5برس میں کتنا حل ہوتا ہے۔ جتنے اختیارات موجودہ میئر وسیم اختر کے پاس ہیں اس سے کہیں کم عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان کے پاس تھے۔ دونوں کے پاس شہر کے مسائل کے مقابلے میں وسائل کم تھے لیکن دنیا نے دیکھا کہ دونوں نے ٹیکسوں میں اضافے کے بغیر شہر کے بجٹ کو کروڑوں سے اربوں تک کیسے پہنچایا۔ ملازمین بھی خوش ہوئے اور شہری بھی۔ اگر شہر کی خدمت کے لیے آئے ہیں تو وسائل بھی خود پیدا کریں اور اختیار وہ تو ہوتا ہے۔ جب استعمال کرنا ہو تو موجودہ میئر اور ان کی ٹیم بھی استعمال کرتی ہے۔ اصل مسئلہ خلوص اور خدمت کے جذبے کا ہے، کچھ لوگ لوٹ مار کے لیے آنا چاہتے ہیں کچھ خدمت کے لیے۔ آج کل کمیٹی کے نام پر جو سیاست ہورہی ہے وہ بھی بہت ضروری ہے پی پی اور پی ٹی آئی ایک دوسرے پر الزامات لگارہے ہیں۔ ٹی وی چینلز پر عوام کا سارا وقت برباد کرتے ہیں کٹھ پتلی تماشا دکھاتے ہیں ٹی وی چینلز بھی سیاستدانوں کو بھانڈوں کی طرح پیش کرتے ہیں۔ ایک کا جملہ دوسرے کا جواب، ایک ایک کرکے جوڑتے ہیں اور ساری دنیا اصل مسائل کو چھوڑ کر بھانڈوں کے ڈرامے دیکھنے لگ جاتی ہے۔ پیپلز پارٹی نے کراچی کے مسئلے کو بڑی چالاکی سے لسانی مسئلہ بنانے کی کوشش کی ہے اور سندھ میں اپنے ووٹروں کے سامنے تو سندھ کارڈ کھیل ہی دیا ہے لیکن یہ لسانی سیاست بڑی نقصان دہ ہوگی۔ کراچی کے عوام تو 35 برس اس سیاست کا مزا چکھ چکے ہیں وہ تو کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ لیکن اگر پیرا شوٹ کے ذریعے کسی کو مسلط کردیا گیا تو پھر شہر کا کام تمام ہوجائے گا۔