ترکی سے ’’موساد‘‘ کو عالمی خطرہ کیوں؟

1142

2002ء میں جب طیب اردوان نے پہلی مرتبہ وزیراعظم ترکی کی حیثیت سے حلف اُٹھایا تو ان کو بتایا گیا کہ وزیر اعظم کی حلف برداری کی تقریب کے بعد ’’کمال اتاترک کے مزار پر حاضری ضروری ہوتی ہے‘‘۔ اس لیے آپ وزیراعظم بننے کے بعد فوری طور پر اتاترک کے مزار پر حاضری دیں۔ طیب اردوان نے پروٹوکول کے مطابق اتاترک کے مزار پر حاضری دی اور مہمانوں کی کتاب میں لکھا کہ ’’اتا ترک آپ! جس مقام کے مستحق تھے اب تک ملک پر حکمرانی کرنے والوں نے آپ کو وہ مقام نہیں دیا۔ میں طیب اردوان آپ کو وہ مقام دلانے کی ہر ممکن کوشش کروں گا‘‘۔ اس جملے کا مقصد کیا تھا اس کے بارے میں ’’صدر اردوان‘‘ ہی بتا سکتے ہیں لیکن جس تیزی سے اتاترک کی اسلام اور مسلمان دشمنی جو اس نے ترکی میں راج کے دوران قائم کر رکھی تھی کے تیزی سے خاتمے کا سلسلہ جاری ہے موجودہ صورتحال سے معلوم ہوتا ہے کہ 16 اگست 2023ء کو ’’لوزان‘‘ معاہدے کے ختم ہونے کے بعد ایک مرتبہ پھر ’’خلافت عثمانیہ‘‘ کا سورج ترکی کی سرزمین پر آب وتاب کے ساتھ طلوع ہوجائے گا۔ طیب اردوان 2007ء اور 2011ء میں بھی ترکی کے وزیراعظم بنے اور ایک ریفرنڈم کی مدد سے وزیراعظم کا عہدہ ختم کرکے ملک میں صدارتی نظام قائم کر کے خود صدر بن گئے۔
طیب اردوان عملی سیاست میں تو بہت پہلے سے تھے لیکن 1994ء میں استنبول کے میئر بننے کے بعد ان کو اس بات کا موقع ملا کہ وہ دنیا کو دکھائیں کہ اسلام نے جس حکمران کا جو تصور پیش کیا ہے وہ کیا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ اردوان جہاں بھی قدم رکھتے ہیں وہاں وہ پوری سنجیدگی سے کام کرتے ہیں اور اللہ ان پر خاص کرم کرتے ہوئے ان کو کامیابی سے ہمکنار کررہا ہے۔
انقرہ سے موصول ہو نے والی ’اناطولیہ‘ خبر ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ترک صدر رجب طیب اردوان نے ترکی کی تاریخ میں گیس کے سب سے بڑے ذخائر دریافت ہونے کا اعلان کردیا۔ مشرقی بحیرہ روم میں ترکی اور یونان کے درمیان متنازع پانیوں میں قدرتی گیس اور تیل کی تلاش پر جاری ہے۔ ترک بحریہ کی سیکورٹی میں ترکی کا بحری جہاز مشرقی بحیرہ روم کے جن علاقوں میں گیس اور تیل دریافت کررہا ہے، ان پر یونان اور قبرص کو اعتراض ہے کہ وہ ان کے علاقے ہیں۔ ترکی کا کہنا ہے کہ یہ سمندری علاقہ اس کی ملکیت ہے اور وہ پانیوں میں اپنے حقوق، مفادات اور تعلقات کا دفاع کرنا جانتا ہے۔ مشرقی بحیرہ روم میں گیس کے وافر ذخائر موجود ہیں جن پر ترکی، قبرص اور یونان کے درمیان اکثر تنازع رہتا ہے۔ دو دن قبل ہم نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ’’فرانس کے صدر نے یونان کا ساتھ دینے کے بہانے اپنے عسکری بحری جہازوں کو بحیرہ روم میں داخل کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں اسرائیل کو بھی بڑی پریشانی کا سامنا ہے‘‘۔ مشرقی بحیرہ روم کے جن علاقوں میں گیس اور تیل کی دریافت کی خبر کے باہر آتے ہی 21جون 2020ء کو برطانوی اخبار THE Times کا کہنا ہے کہ! موساد کے سربراہ یوسی کہن نے عرب ملکوں کی خفیہ ایجنسی کے سربراہان کے اجلاس سے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ:
Mossad Thinks Turkey is a bigger menace than Iran
موساد کے سربراہ کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ ترکی عربوں کے لیے ایران سے بڑا خطرہ ہے۔ انہوں نے عرب ملکوں کی خفیہ ایجنسی کے سربراہان کے اجلاس کو یہ بھی بتایا کہ ’’ترکی پورے عرب خطے میں آگے بڑھتے رہو کی پالیسی پر عمل کر رہا ہے‘‘۔
ترکی اور اسرئیل کا یہ تنازع 2008ء میں اس وقت شروع ہوا جب غزہ پٹی پر اسرائیل کے حملے کے بعد رجب طیب اردوان کی زیر قیادت ترک حکومت نے اپنے قدیم حلیف اسرائیل کے خلاف سخت رد عمل کا اظہار کیا اور اس پر سخت احتجاج کیا۔ ترکی کا احتجاج یہیں نہیں رکا بلکہ اس حملے کے فوری بعد ڈاؤس عالمی اقتصادی فورم میں ترک رجب طیب اردوان کی جانب سے اسرائیلی صدر شمعون پیریز کے ساتھ دوٹوک اور برملا اسرائیلی جرائم کی تفصیلات بیان کرنے 31 مئی بروز پیر 2010ء کو محصور غزہ پٹی کے لیے امدادی سامان لے کر جانے والے آزادی بیڑے پر اسرائیل کے حملے اور حملے میں 9 ترک شہریوں کی ہلاکت کے بعد پھر ایک بار اردوان عالم عرب میں ہیرو بن کر ابھر ے اور عوام سے لے کر حکومتوں اور ذرائع ابلاغ نے ترکی اور ترک رہنما رجب طیب اردوان کے فلسطینی مسئلے خاص طورپر غزہ پٹی کے حصار کے خاتمے کے لیے ٹھوس موقف کو سراہا اور متعدد عرب صحافیوں نے انہیں قائد منتظر قرار دیا۔ وہ واحد وزیر اعظم صدر تھے جنہوں نے ’’مصر میں پہلے منتخب صدر مرسی‘‘ کی سیسی حکومت کے ہاتھوں شہید کیے جانے پر سخت ردِ عمل اور ترکی میں صدر مرسی کی سرکاری اعلان کے ساتھ نماز جنازہ اور بنگلادیش میں جماعت اسلامی کے رہنما کی پھانسی پر ترکی کے سفیر کو بنگلادیش سے واپس بلانے کی سخت کارروائی کرنے سے بھی گریز نہیں کیا تھا۔
اس سلسلے میں ایک مرتبہ شاہد ہاشمی نے تقریر کے دوران بتایا کہ ’’اتاترک کا جب انتقال ہوا تو ترکی میں ان کی نماز جنازہ کا مسئلہ پیدا ہوگیا۔ اس وقت ان کے نائب نے اس مسئلے کو اس طرح حل کرتے ہوئے ایک تقریر میں کہا کہ ’’کمال اتاترک‘‘ کی نماز جنازہ ان کے نظریات، خیالات اور ان کی برسوں کی سیکولرازم کے نفاذ کے لیے جِدوجُہد کے سراسر منافی ہے‘‘۔ اس لیے کمال اتاترک کی میت کو نماز جنازہ کے بغیر ہی دفن کیا جائے۔ اور ایسا ہی کیا گیا۔ آج بھی کمال اتاترک کا مزار ایک بڑے ہال میں موجود ہے اس ہال میں سرکاری طور پر اتاترک کے لیے دعائے مغفرت کرنا منع ہے اور ہال کی دیواروں پر یہ ہدایت جلی حرفوں لکھی ہوئی ہے کہ یہاں دعائے مغفرت کرنا منع ہے۔ طیب اردوان نے درست کہا ہے کہ اتاترک کو ترکی کے حکمرانوں نے سمجھا ہی نہیں تھا اور وہ مقام اور مرتبہ جو اس کو آج دنیا میں حاصل ہے وہ ایک غیر مسلم اور یہودی تھنک ٹینک کے رکن ہی کا ہوسکتا ہے۔ یہ سب اب اپنے خاتمے کی جانب رواں دواں ہیں۔ موساد اور اس کے ساتھی عرب خفیہ ایجنسی کے سربراہ اور حکمرانوں کے خوف سے آنے والے وقت کو روکا نہیں جا سکتا۔ بس آج بھی یہی ٹھیک ہے کہ جس نے وقت کو تھام لیا کامیابی اسی کے حصے میں آئے گی۔