کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے

344

آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب بچے کوئی کھیل کھیلتے ہیں تو ان میں کوئی ایک ہٹ دھرم بچہ ایسا بھی ہوتا ہے جو کھیل میں مطلوبہ نتیجہ نہ ملنے پر پورے کھیل کو بگاڑ دیتا ہے اور نہ خود کھیلتا ہے اور نہ دوسروں کو کھیلنے دیتا ہے۔ مثلاً اگر وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ لوڈو کھیل رہا ہے اور اس کی گوٹ مسلسل پیٹتی چلی جارہی ہے تو وہ خوشدلی سے اپنی ہار قبول کرنے کے بجائے دھاندلی پر اُتر آتا ہے اور ساری بساط اُلٹ کر لوڈو اپنے قبضے میں لے لیتا ہے۔ اس طرح نہ خود کھیلتا ہے نہ دوسروں کو کھیلنے دیتا ہے اور پورا کھیل ہنگامے کی نذر ہوجاتا ہے۔ یہ بچگانہ رویہ صرف بچوں تک محدود نہیں، بڑے بھی اس خصلت کا شکار ہیں۔ خاص طور پر سیاست میں تو یہ رویہ معمول کا درجہ رکھتا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تعلقاتِ کار کا خلاصہ بس یہی ہے کہ ’’کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے‘‘۔ حکومت کی دو سالہ کارکردگی سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کرپشن مافیا سے تو نہ نمٹ سکی اور 2 سال کے دوران مہنگائی آسمانوں سے بھی اُوپر جاپہنچی۔ آٹا 70 روپے کلو بکنے لگا، چینی 100 روپے کلو تک جا پہنچی۔ دیگر اشیائے خور ونوش کی قیمتیں بھی عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوگئیں۔ البتہ حکومت نے نیب کے ذریعے اپوزیشن کو خوب کس کر رکھا اور اپوزیشن لیڈروں کی دوڑیں لگتی رہیں۔ بڑے میاں صاحب جان بچا کر لندن چلے گئے اور ابھی تک وہیں مقیم ہیں۔ وہ بظاہر چار چھ ہفتے کی عدالتی رخصت پر ملک سے باہر گئے تھے اور علاج کرانا مقصود تھا۔ پاکستان میں تھے تو ہر وقت موت کا فرشتہ ان کے سرہانے کھڑا نظر آرہا تھا اور حکومت خائف تھی کہ کہیں وہ اس کے ہتھے نہ لگ جائیں اور سوگواروں کا احتجاج
اسے نہ لے ڈوبے۔ چناں چہ اس نے ڈاکٹروں کے مشورے پر میاں صاحب کو لندن بھیج دیا۔ لندن کی ہوا انہیں ایسی راس آئی کہ وہاں پہنچتے ہی وہ بھلے چنگے ہوگئے۔ سڑکوں پر مٹرگشت کرنے لگے، لندن سمیت پوری دُنیا میں کورونا کی وبا پھیلی تو انہوں نے اپنے علاج کا دفتر سمیٹ کر رکھ دیا اور یہ شرط لگادی کہ کورونا ختم ہوگا تو وہ اپنے دل کا علاج کرائیں گے۔ اب عدالت نے بھی لندن میں ان کے غیر معینہ قیام پر سوال اُٹھایا ہے تو سنا ہے کہ وہ اسپتال میں داخل ہونے پر غور کررہے ہیں تا کہ لندن میں ان کے مزید قیام کا جواز فراہم ہوسکے۔ سیانے کہتے ہیں کہ یہ بھی میاں صاحب کی ’’کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے‘‘ کی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے جس کے تحت وہ لندن میں بیٹھ کر حکومت کے لیے مشکلات پیدا کررہے ہیں اور حکومت انہیں پھنسانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ رہے چھوٹے میاں تو اگرچہ وہ بڑے طمطراق سے لندن سے واپس آئے تھے لیکن حالات کے تیور بھانپتے ہی قرنطینہ میں چلے گئے اور بڑے میاں صاحب کی پالیسی کے برعکس حکومت کو یک طرفہ کھیلنے کی اجازت دے دی اور اس نے نہ صرف بجٹ نہایت آسانی سے منظور کرالیا بلکہ ایف اے ٹی ایف کو مطمئن کرنے کے لیے اہم قانون سازی بھی کرلی۔
حکومت کی 2 سالہ مدت میں سب سے اہم واقعہ حضرت مولانا کا دھرنا تھا جس نے واقعی حکومت کی چولیں ہلادی تھیں وہ پورے سازوسامان کے ساتھ یہ طے کرکے اسلام آباد آئے تھے کہ ’’کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے‘‘۔ ان کا سب سے اہم اور بنیادی مطالبہ ہی یہ تھا کہ وزیراعظم عمران خان استعفا دے کر بنی گالا واپس جائیں۔ حضرت مولانا کو اس سے غرض نہ تھی کہ اگلا وزیراعظم کون ہوگا۔ کم از کم ان کا وزیراعظم بننے کا چانس تو بالکل بھی نہ تھا۔ لیکن اس کے باوجود وہ بضد تھے کہ عمران خان کو وزیراعظم نہیں رہنے دیں گے۔ پھر چودھری برادران نے ایسی کاری گری دکھائی کہ حضرت مولانا پوری اننگ کھیلے بغیر خاموشی سے واپس چلے گئے اور چودھریوں سے آج تک شاکی چلے آئے ہیں۔ خیر یہ سب تو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ’’کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے‘‘ کا مقابلہ تھا لیکن اب اپوزیشن آپس میں بھی یہ کھیل بڑی سنجیدگی سے کھیل رہی ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ بقرعید سے پہلے اپوزیشن کی اے پی سی کا بڑا چرچا تھا۔ بلاول یہ تجویز لے کر آم کے کریٹ کے ساتھ شہباز شریف کے پاس گئے تھے۔ موصوف نے نہایت پُرجوش انداز میں اے پی سی کی تجویز کا خیر مقدم کیا تھا۔ پھر دونوں لیڈروں نے حضرت مولانا سے بھی مشاورت کی وہ تو جلد از جلد اس فریضے کو انجام دینے کے حق میں تھے۔ البتہ ان کی ایک شرط تھی کہ اے پی سی میں جو فیصلے ہوں ان پر عملدرآمد کی تحریری ضمانت دی جائے کیوں کہ وہ اپنے دھرنے کے دوران دونوں بڑی پارٹیوں کی بے وفائی کے تلخ تجربے سے گزر چکے تھے اور یہ سانحہ دوبارہ نہیں دہرانا چاہتے تھے لیکن ہوا یہ کہ اے پی سی کی تجویز تو رہی ایک طرف، قومی اسمبلی کے ایک اجلاس کے دوران حضرت مولانا کی پارٹی اور بلاول کی پارٹی کے ارکان کسی بات پر ایک دوسرے سے اُلجھ پڑے۔ گالم گلوچ کے علاوہ نوبت ہاتھا پائی تک جاپہنچی۔ اِدھر مسلم لیگ کی نائب صدر اور بڑے میاں صاحب کی جانشین محترمہ مریم نواز صاحبہ نیب میں پیشی کے لیے کارکنوں کی بارات لے کر نیب کے دفتر جا پہنچیں اور پولیس مقابلے کے بعد نیب کی عدالت میں پیش ہوئے بغیر فتح کا جھنڈا لہراتے ہوئے واپس چلی گئیں۔ اس طرح انہوں نے اپنے اپوزیشن لیڈروں کو یہ پیغام دے دیا کہ وہ اے پی سی، اے پی سی کھیلنے کے بجائے ڈائریکٹ ایکشن پر یقین رکھتی ہیں۔ رہے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف تو وہ حکومت کے خلاف کچھ بھی کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ انہیں ستاروں کی چال پر یقین ہے اور سمجھتے ہیں کہ کوئی ستارہ ایک نہ ایک دن ایسی چال چلے گا کہ ان کے سارے دلدّر دور ہوجائیں گے اور اقتدار انہیں خود خوش آمدید کہے گا۔ اس لیے اے پی سی ہو یا کوئی احتجاجی تحریک، اس کھکھیڑ میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو۔ دوسری طرف بلاول کی پارٹی اور حضرت مولانا کی پارٹی میں ٹھن گئی ہے اس لیے بھی اے پی سی کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔ سچ پوچھیے تو صرف حضرت مولانا ہی حکومت کے خلاف کوئی فیصلہ کن قدم اُٹھانے میں مخلص نظر آتے ہیں لیکن اپوزیشن میں ان کے سارے حلیف ان کی ٹانگ کھینچنے میں مصروف ہیں اور ’’کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے‘‘ کی پالیسی پر عمل کررہے ہیں۔
سیاست کا یہ منظرنامہ بھی کتنا دلچسپ ہے۔