کراچی میں نیا ضلع اور پیپلز پارٹی کا مستقبل

385

حکومت سندھ نے جمعرات کو بلدیاتی انتخابات کے قریب کراچی میں ساتویں ضلع کے قیام کی منظوری دے کر کمال ہوشیاری سے کئی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی۔ تاہم حکومت کے مشیر مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ نئے ضلع کے قیام کا مقصد بلدیاتی انتخابات میں زیادہ نشستیں حاصل کرنا ہے اور نہ ہی کوئی اور سیاسی مقصد ہے۔ جبکہ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کا کہنا تھا کہ حکومت نے کیماڑی کو ضلع بناکر کراچی کے وسائل پر قبضہ کرنے اور کراچی کے اصل مسائل سے نظریں ہٹانے کی کوشش ہے۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ کراچی کی آبادی تمام تر معیارات کے مطابق ڈھائی سے تین کروڑ ہے۔ وفاقی حکومت کو مردم شماری کو درست کرانا چاہیے۔ سندھ کی تمام اپوزیشن جماعتوں نے بھی نئے ضلع کے قیام کے فیصلے کی مخالفت کی اور سندھ اسمبلی کے جمعہ کے اجلاس میں نئے ضلع کے قیام کے اعلان پر شدید احتجاج کیا اس دوران اسپیکر ڈائس کے سامنے نعرے لگائے اور احتجاجی پوسٹر لہرائے۔
سوال یہ ہے کہ سندھ حکومت کو اچانک ہی پرسرار انداز میں کراچی کے ساتویں ضلع کے قیام کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ ایک ایسے وقت میں جب بلدیات کا رواں دور ختم ہونے میں محض چند روز اور نئے بلدیاتی انتخابات کے لیے چند ماہ رہ گئے ہیں۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ کراچی کو وفاق کی جانب سے انتظامی طور پر کنٹرول کرنے کی بازگشت میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے نئے ضلعے کا شوشا کیوں چھوڑا۔ لگتا یہی ہے کہ صوبائی حکومت نے وفاق کو کراچی کو کنٹرول کرنے کی خواہش کے برعکس سندھ میں اپنے بااختیار ہونے کا پیغام دے دیا ہے۔ پہلے سے 6ڈسٹرکٹ ایسٹ، سینٹرل، سائوتھ، ویسٹ، ملیر اور کورنگی کی موجودگی میں ساتویں ضلع کیماڑی کی منظوری سندھ کابینہ نے دے کر دراصل کراچی کو کنٹرول کرنے کی بازگشت کو سرے سے ختم کرنے کی کوشش کی اور یہ بتانے کی کوشش کی کہ کراچی کو اپنی مرضی سے تقسیم کرنے کے اختیارات صوبائی حکومت کے پاس ہے۔ اس ضمن میں وفاقی حکومت کوئی اختیار نہیں رکھتی۔ لیکن صوبائی حکومت کا صوبے کے دارالحکومت میں ساتویں ضلع کے قیام کے فیصلے کو پرسرار رکھتے ہوئے سندھ کابینہ کے جمعرات 20 اگست کے لیے جاری کیے گئے 15 رکنی ایجنڈے کے اجلاس میں نئے ڈسٹرکٹ کے قیام کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ تاہم وزیراعلیٰ کی خصوصی اجازت سے دوران اجلاس اسے ایجنڈے کا حصہ بنایا گیا تھا۔ جبکہ اس ضلع کے قیام کے حوالے سے آوازیں گزشتہ چند روز شہر میں آرہی تھیں۔
صوبائی حکومت نے ضلع کیماڑی کے قیام کی باقاعدہ منظوری عین اس وقت دے کر وفاق اور کراچی والوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ ’’ وہ جب چاہے کراچی کو تقسیم کرسکتی ہے کیونکہ وہ آئین کی 18 ویں ترمیم کے تحت ایسا کرنے کا اختیار رکھتی ہے‘‘۔
خیال رہے کہ وفاق کی جانب سے جب کراچی کا کنٹرول حاصل کرنے کی بات چلی تو سندھ حکومت نے سخت ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ سندھ اس کی ماں ہے اسے توڑنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی مگر دوسری طرف یہی حکومت صوبائی دارالحکومت کے مسلسل ٹکڑے کرنے میں مصروف ہے، گزشتہ 12سال میں ڈسٹرکٹ ملیر اور کورنگی کے بعد اب ضلع کیماڑی بنارہی ہے۔ نیا ضلع بنانے کا مقصد خالصتاً سیاسی لگتا ہے جس کے تحت اب نئی ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن (ڈی ایم سی) بھی تخلیق کرنا ہوگی۔ اس مقصد کے لیے بلدیہ عظمیٰ کراچی کی کونسل کی نشستوں میں اضافہ کرنا ہوگا جو اس وقت 243 ہے تاہم اس نئے ضلع کے قیام سے عام لوگوں سے زیادہ بیورو کریسی کو فائدہ ہوگا اور نئی اسامیاں پیدا کی جائیں گی جس سے مالی بحران سے دوچار سندھ پر مزید مالی بوجھ پڑے گا۔ امکان ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت خود اس فیصلے سے مشکلات کا شکار ہوجائے گی کیونکہ اس ضلع کے قیام کے نتیجے میں حکومت کو ڈسٹرکٹ کونسل کراچی کی حدود میں بھی رد و بدل کرنا ہوگا جو اس وقت مجوزہ کیماڑی ضلع کے ہاربر اور کیماڑی سب ڈویژن کا حصہ ہے۔ نیا ضلع اگرچہ ہاربر سائٹ، بلدیہ اور کیماڑی سب ڈویڑنز پر مشتمل ہوگا۔ ہاربر سب ڈویژن میں ڈسٹرکٹ کونسل کراچی کے بابا بھٹ شاہ اور منوڑہ کے علاقے پہلے سے شامل ہیں جن میں رد و بدل ناگزیر ہوگا، اگر ایسا کیا گیا تو ڈسٹرکٹ کونسل کی نشستیں اور حدود کا تنازع پیدا ہوسکتا ہے۔ خیال ہے کہ پی پی پی حکومت نیا ڈسٹرکٹ بناکر بلدیہ عظمیٰ کراچی میں اپنا میئر لانا چاہتی ہے جو بغیر کسی پارٹی کے اشتراک کے ممکن نہیں ہوسکے گا۔
پیپلزپارٹی کی حکومت کی خواہشات کچھ بھی ہو مگر نوشتہ دیوار وہی ہے جو اس حکومت نے سندھ خصوصاً کراچی کے ساتھ بارہ سال کے دوران کیا اور کررہی ہے۔ اس حکومت نے مقامی سطح کے بلدیاتی نظام خصوصاً کے کراچی لوکل گورنمنٹ سسٹم کو جس طرح نقصان پہنچایا اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ صوبائی حکومت نے اپنے اختیارات سے کراچی کو یتیم ہی کردیا۔ کراچی بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی کو سندھ بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی میں تبدیل کرکے کراچی کا نقشہ بگاڑا تو دوسری طرف سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ بناکر کراچی ہی کیا پورے صوبے کو گاربیج اسٹیشن میں تبدیل کردیا۔ جبکہ شہر کراچی کے بلدیاتی اداروں سے صفائی ستھرائی کے اختیارات چھین لیے۔ ایسی صورتحال کے ردعمل کے طور پر کراچی سمیت سندھ کے لوگ پیپلزپارٹی کی صوبے سے مکمل صفائی تو کراسکتے ہیں لیکن اس پارٹی کو مزید حکمرانی کا موقع نہیں دے سکتے۔
ترکی سے ’’موساد‘‘ کو عالمی خطرہ کیوں؟
قاضی جاوید