اہم ترین سیکرٹری کی گرفتاری صوبائی حکومت کے کرپٹ ہونے کی دلیل ہے ؟

194

کراچی ( تجزیہ : محمد انور ) سندھ کے اہم ترین سیکرٹری بلدیات روشن شیخ پیر کو ہائی کورٹ سے اس وقت گرفتار کرلیے گئے جب عدالت نے ان کی حفاظتی ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کر دی۔ روشن علی شیخ کی گرفتار یقینا سندھ حکومت خصوصاً وزیر اطلاعات و بلدیات ناصر شاہ کے لیے بڑا دھچکا ہوگی۔ اس لیے کہ روشن شیخ وہ افسر ہیں جنہیں ناصر علی شاہ کی سفارش پردو سال قبل سیکرٹری بلدیات مقرر کرکے انہیں تمام اختیارات آزادانہ استعمال کرنے کی اجازت
دی گئی تھی‘ تاہم وہ ہائیکورٹ سے کرپشن کے جس مقدمے می گرفتار کیے گئے ہیں اس زمین کی وول واشنگ ایریا میں واقع کئی ایکٹر رقبے پر مشتمل زمین کی غیرقانو نی الاٹمنٹ کا تقریبا سات سال پرانا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ روشن علی شیخ غیرمناسب سیاسی حالات کے باوجود پیشہ ورانہ طور پر بطور سیکرٹری بلدیات خدمات انجام دے رہے تھے۔ مگر یہ سندھ حکومت کی بدقسمتی ہے یا کچھ اور کہ اس کے سابق دو چیف سیکرٹری ، نصف درجن سیکرٹریز اور موجودہ حکومت کی براہ راست نگرانی میں چلنے والے کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ایک ڈائریکٹر جنرل کرپشن کے مقدمات میں ملوث ہیں۔ ساتھ ہی گزشتہ 12سال میں چار صوبائی وزرا اور دو مشیر بھی نیب کے مقدمات کی گرفت میں رہے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری خود بھی تاحال اسی طرح کے مقدمات بھگت رہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی مخالفین اور آزاد حلقے اس پر باآسانی کرپٹ حکومت کا الزام لگاتے ہیں۔ موجودہ حکومت پر مبینہ طور کرپشن کا الزام ہے بلکہ اس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے سیاسی حلیفوں کی کرپشن ہی نہیں بلکہ غفلت و لاپروائی پر بھی چشم پوشی کرتے ہوئے انہیں خوب موقع فراہم کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی اس طرز حکمرانی کی وجہ سے ان دنوں بارشوں کے دوران تباہ حال نظر آرہا ہے۔ کراچی میں نالوں کی صفائی کے نام پر کروڑوں روپے سالانہ خرچ کیے جانے کے باوجود حکومت سندھ کا محکمہ بلدیات اربوں ڈالر کے عالمی بینک کے قرضے سے کراچی کی بہتری کے لیے نئے منصوبے پر عمل پیرا ہے مگر پرانے منصوبے پر کس طرح اور کتنے فنڈر خرچ کیے گئے ، یہ سوال نہ صوبائی حکومت میئر وسیم اختر سے پوچھ رہی نہ وہ خود اس کی وضاحت کرپارہے ہیں چار سال کے دوران کم و بیش 20 ارب روپے خرچ کیے جانے کے باوجود کراچی 2016 سے بدتر ہوچکا ہے تو اس میں بلدیاتی قیادت کے ساتھ صوبائی حکومت کا بھی پورا ہاتھ لگتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا نیب ان معاملات پر بھی اپنی مؤثر کارروائیاں کرے گی یا وہ بھی آنکھیں بند کیے رہے گی۔ میئر وسیم اختر نے پیر کو اپنی ناکامی کا رونا روک کر لوگوں کے چہروں پر طنزیہ مسکراہٹیں بکھیر ڈالی مگر کیا نیب بھی یہی کرنا چاہتی ہے ؟