کھوج اچھا ہوتا ہے یا نہیں؟

263

بہت سوچ سمجھ کر یہ موضوع منتخب کیا ہے اور اس کی وجہ بھی خاص ہے‘ صحافت کھوج ہی کا نام ہے‘ مگر کچھ ایسے کھوج بھی ہیں جن سے حکمت کی کتاب مبین میں کھوج سے منع بھی فرمایا گیا ہے کہ ہر وقت کسی کی کمزوری کی تلاش میں نہ رہا جائے‘ یہ عادت ان تمام صحافیوں میں کچھ زیادہ ہی آچکی ہے جو اپنا اصل کام تو کرتے نہیں بس اسی کھوج میں رہتے ہیں کہ کون کیا کر رہا ہے اور پھر کھوج لگا نے کے بعد اپنے باس کے کان بھرتے ہیں یوں انہیں تسکین ملتی ہے‘ چلیے تسکین تو حاصل کرلی‘ مگر انہیں اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے اس عمل کی وجہ سے حلقہ احباب میں اپنی عزت بھی گنوا رہے ہوتے ہیں۔ صحافت اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے یہی کام سیاست میں بھی ہورہا ہے‘ ہر سیاسی مجلس میں ہونے والی گفتگو ’’باس‘‘ کے خلاف ہی ہوتی ہے اور اسی باس کو وہ کھلے عام قائد بھی تسلیم کرتے ہیں‘ اس کی نظروں میں رہنے کا جتن بھی کرتے ہیں‘ مگر چند ساتھیوں کی محفل میں گفتگو کا موضوع باس اور قائد کی کمزوریاں ہی زیر بحث آتی ہیں۔ کیا ایسے افراد کو‘ جنہیں کھل کر بات کرنے کی ہمت اور سلیقہ نہیں آتا‘ انہیں کسی سیاسی جماعت یا کسی صحافتی ادارے میں ہونا چاہیے؟ یہ فیصلہ ہم قاری اور سیاسی کارکن پر چھوڑ دیتے ہیں۔
تحریک انصاف اس ملک میں ایک تیسری سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئی اور سمجھا جانے لگا کہ یہ ہوا کا تازہ جھونکا ہے‘ مگر دو سال گزر گئے ہوا کا تازہ جھونکا ’’ماضی کا تعفن‘‘ دور نہیں کرسکا‘ اب تو محسوس ہورہا ہے کہ ماضی کیا واقعی اتنا برا تھا‘ یہ فیصلہ بھی ہم خود نہیں کرتے‘ فیصلہ جمہور پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ہر سیاسی محفل میں دائیں بازو اور بائیں بازو کی بہت بحث ہوتی ہے‘ اگرچہ آج کا زمانہ اب نظریاتی نہیں رہا‘ سیاست اور صحافت بھی نظریاتی نہیں رہی مگر شاید عادتیں ابھی تک نہیں بدلی ہیں۔ سیاست میں ایک نام تھا‘ محمد علی جناح‘ ایک نام تھا فاطمہ جناح، انہیں کیسے کیسے دکھ جھیلنے پڑے ہیں یہ حقائق ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ جب محمد علی جناح اور فاطمہ جناح حیات تھے تو اس وقت بھی محفلوں میں گفتگو ہوتی ہوگی اور باس ہی گفتگو کا موضوع ہوگا‘ ہم دیکھتے ہیں کہ کشمیر آج بھی بھارت کے ہاتھوں یرغمال ہے اور تاریخ کہتی ہے کہ بانی پاکستان نے سری نگر پر حملہ کرنے کا حکم دیا تھا مگر یہ حکم نہیں مانا گیا‘ کیوں نہیں مانا گیا؟ اس پر سچ سامنے آنا چاہیے‘ محترمہ فاطمہ جناح کیوں سیاسی لحاظ سے تنہا کردی گئیں اور ایوب خان کیوں ان کے مقابل آگئے؟ اس بات کا کھوج بھی لگانا چاہیے اور سبق بھی حاصل کرنا چاہیے‘ لیکن کیا دیکھتے ہیں کہ ہر سیاسی جماعت میں ہمیں آج بھی ایوب خان ماضی کی طرح فاطمہ جناح کے مقابل کھڑے نظر آتے ہیں‘ ہمیں سریح الفکر، صحیح النظر اور صاحبِ ادراک ہے قیادت کیوں نہیں مل رہی؟
اگلے ماہ ستمبر کو ہم قائد کا یوم وفات عقیدت و احترام سے منائیں گے یہ ہم یہ کام 11 ستمبر 1948 ہی سے کرتے چلے آرہے ہیں مگر ہمیں وہ روشنی نہیں مل رہی جس سے ہم اندازہ لگا سکیں کہ ہم سے ہمارا یہ مسیحا کیسے بچھڑ گیا اور ہمارے موسموں میں خزاں کا رنگ کیوں بھر گیا صحنِ چمن میں مرغانِ خوش الحان تو موجود ہیں مگر ہماری سیاست اور صحافت میں شتر مرغ بھی ہیں جنہوں نے اپنی سر ریت میں دبا رکھے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمیں آسمان کی رفعتوں کا علم ہی نہیں ہو پارہا بس وہی لوگ کامیاب ہیں جو سہانے سپنوں دکھاتے ہیں اور دن رات سپنوں کے محل تعمیر کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور جھوٹ کا تڑکا لگا کر سیاست اور اپنی صحافت بچا رہے ہیں لیکن شکم سیری کی منزل نہیں آرہی۔ یہ ٹولہ ایسا ہے جو ہر وقت اپنے باس کو ’’ٹرک کی بَتی‘‘ کے پیچھے لگائے رکھتا ہے سیاست اور صحافت کا باس بھی اسی میں خوش رہتا ہے حالانکہ سچ یہ ہے کہ جب معمار پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی لگادے تو دیوار اگر ثریا تک بھی چلی جائے تو ٹیڑھی ہی ہوگی۔ اسلام میں عہد کی کیا اہمیت ہے جو اپنے عہد کی حفاظت نہیں کرتا ’’اللہ قیامت کے روز اُن سے بات کرے گا نہ اُن کی طرف دیکھے گا اور نہ اُنہیں پاک کرے گا بلکہ اُن کے لیے سخت دردناک سزا ہے‘ عہد یہ ہے کہ کسی کی کھوج میں نہ رہو اور ہمیشہ سچ بولو اور صرف اپنی جھوٹی عزت بڑھانے کے لیے باس کے سامنے کسی کے بارے منفی بات نہیں کرنی چاہیے… سیاست میں ہر سیاسی جماعت میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں اور صحافت تو ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے۔
اس مطلب یہ ہوا ہماری سیاست اور ہماری صحافت مستقبل میں نکھرنے کے بجائے مزید داغ دار ہوگی‘ کیونکہ ہم نے یہ سبق پڑھ لیا ہے کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں جس روز ہم نے یہ جملہ سمجھ لیا اس روز سیات اور صحافت بھی درست ہوجائے گی اور یہ اشتہار بھی بند ہوجائے گا۔