بیچارہ ملک اور کرکٹ ٹیم کا کپتان

419

پاکستان کی کرکٹ ٹیم ان دنوں انگلینڈ کے دورے پر ہے جہاں وہ تیسرا ٹیسٹ میچ کھیل رہی ہے۔ پیر، 24 اگست، 2020، تیسرے ٹیسٹ میچ کے چوتھے دن کا کھیل کھیلے گی۔ میچ کے پہلے اور دوسرے دن کے میچ کا کچھ وقت بارش کی نذر ہوا، کافی وقت انگلینڈ نے اپنے تصرف میں رکھا اور آخیر کے سات آٹھ اورز کے لیے پاکستان کو اپنے جوہر دکھانے کا موقع فراہم کیا۔ آخر کے یہ سات آٹھ اورز پاکستان کے لیے بہت مایوس کن ثابت ہوئے اور پاکستانی ٹیم اپنے تین چوٹی کے کھلاڑی کھو دینے کے باوجود بھی بمشکل 24 رن بنا سکی۔ پاکستان کی اننگ سے قبل انگلینڈ کی ٹیم 583 رن بنا کر اور آٹھ کھلاڑی آؤٹ ہونے پر اپنی اننگ ختم کرنے کا اعلان کر چکی تھی۔ اب یا تو یہ پہاڑ جیسے اسکور کا نفسیاتی دباؤ تھا یا دو دن کی مسلسل فیلڈنگ کی تھکن اور مخالف ٹیم کے بیٹس مینوں کی گیند کے ساتھ نہایت ظالمانہ سلوک کا اثر تھا کہ صرف 24 رنز کے عوض پاکستان کے تین بہترین کھلاڑی آؤٹ ہو کر پویلین میں بغرض آرام واپس لوٹ گئے تھے۔ یہ بہت ہی مایوس کن اور حوصلے پست کرنے والی بات تھی اور لگتا تھا کہ جب تیسرے دن کا آغاز ہوگا تو پوری ٹیم نہ صرف بہت جلد بلکہ شاید بہت ہی کم اسکور پر میدان سے باہر ہو جائے گی لیکن توقع کے بر خلاف تیسرے دن جلد ایک وکٹ اور کھودینے کے باوجود ٹیم کے کپتان، جن کو ٹیسٹ کرکٹ کا بہت بڑا تجربہ بھی نہ تھا، ایک ٹیسٹ ہار بھی چکے تھے اور پہلے ٹیسٹ کی دونوں اننگوں میں نمایاں کار کردگی کا مظاہرہ بھی نہ کر سکے تھے، انہوں نے نہایت ذمے داری کے ساتھ اپنی اننگ کا آغاز کیا۔ ٹیسٹ ٹیم کے وکٹ کیپر محمد رضوان جو فواد عالم کے آؤٹ ہونے کے بعد آئے، انہوں نے ٹیم کو نہ صرف سہارا دیا بلکہ ٹیم کو ایک بڑے اسکور کی جانب لے گئے۔ دونوں بلے بازوں نے بے شک کرکٹ کے شائقین کی توقع کے خلاف اپنے اعلیٰ کھیل کا مظاہر کیا لیکن یہ سب شائقین کی امنگوں کے عین مطابق تھا۔ وکٹ کیپر محمد رضوان دوسرے ٹیسٹ میچ میں بھی اپنی جس اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر چکے تھے، اس کو بر قرار رکھا اور مخالف ٹیم کو مشکلات کا شکار کردیا۔ لگ رہا تھا کہ شاید یہ دونوں کھلاڑی اسکور کو اور بھی آگے لے جائیں لیکن محمد رضوان کے آؤٹ ہوتے ہی ٹیم سنبھل نہ سکی اور یوں پوری ٹیم میچ کے تیسرے ہی دن 273 رن بنا کر آل آؤٹ ہو گئی۔
جس ذمے داری سے کپتان اظہر علی نے اننگ کھیلی اور جس شاندار انداز میں وکٹ کیپر محمد رضوان نے ان کا ساتھ دیا اگر پاکستان کے ٹاپ فور بلے باز کم از کم محمد رضوان کے برابر بھی کھیل گئے اور اظہر علی ایک مرتبہ پھر اسی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب ہو گئے تو کوئی وجہ نہیں کہ میچ کے دودن نہ گزارے جا سکیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ باقی 310 رنز اتار کر کل لنچ یا ٹی ٹائم سے ایک گھنٹے قبل تک مناسب لیڈ حاصل کرنے کے بعد انگلینڈ کی جیت کے امکانات کو بھی معدوم تر کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔
کرکٹ ہی نہیں، کوئی سا بھی ایسا کھیل جس میں آٹھ دس افراد سے زیادہ ایک ٹیم بنا کر کھیلتے ہیں اس میں نہ تو کپتان اپنی مرضی سے بنتا ہے اور نہ ہی کپتان کو اپنی ٹیم بنانے کا کوئی اختیار ہوتا ہے۔ اسے اچانک یہ خبر دی جاتی ہے کہ آپ کو کیپٹن شپ کی ذمے داری سونپی جارہی ہے اور آپ کی ٹیم کے کھلاڑی یہ، یہ اور یہ ہیں۔ اس کے باوجود کہ اسے راتوں رات کپتان بنادیا جاتا ہے اور میدان میں پہنچنے سے قبل ہی اس کے لیے بٹالین تیار کردی جاتی ہے، ٹیم کی کسی بھی قسم کی خراب کار کردی کی ساری ذمے داری اپنے کندھوں پر ہی اٹھانی پڑتی ہے۔ پہلے میچ میں بھی اسے اپنے کھلاڑیوں کی جانب سے مایوسی اٹھانا پڑی تھی اور آخری ٹیسٹ میچ میں بھی اسے کھلاڑیوں کی جانب سے سخت آزمائش در پیش ہے۔ پہلے میچ میں بے شک وہ از خود بھی نمایاں کارکردگی نہیں دکھا سکے تھے لیکن پوری ٹیم کو یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ ان سب کی خراب کارکردگی خود کپتان کو نفسیاتی اعتبار سے کتنا مفلوج کر دیتی ہے۔
جس طرح کسی بھی ٹیم کا کپتان اپنے تئیں نہ تو کپتان بن جاتا ہے اور نہ ہی ٹیم کے کھلاڑیوں کا انتخاب کرتا ہے اسی طرح موجودہ حکمران اور اس کی ٹیم کے متعلق بھی زباں زد عام بات یہی ہے کہ وہ نہ تو حقیقی طور پر منتخب ہوکر کرسی اقتدار پر بیٹھنے میں کامیاب ہوا ہے اور نہ ہی اپنی ٹیم کے انتخاب میں اس کی مرضی و منشا کا عمل دخل ہے لیکن پوری قوم ہی نہیں، ادارے، سیاسی پارٹیاں اور عوام ہر قسم کی خراب کارکردگی کا واحد ذمے دار ’’کپتان‘‘ ہی کو قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ مخالفین کا تو کام ہی مخالفت ہوتا ہے، وہ لوگ جو خود ٹیم کا حصہ ہیں، وہ بھی دبے الفاظ میں ’’کپتان‘‘ ہی پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔
دونوں ’’کپتانوں‘‘ کے ساتھ، کوچز، منیجروں، چیئرمینوں اور سلیکٹروں کی ایک فوج ظفر موج موجود ہوتی ہے لیکن ہر خرابی کی جواب دہی کپتانوں ہی سے طلب کی جاتی ہے جبکہ کامیابیوں کا کریڈڈ لینے کے لیے ہر کوئی بڑی بڑی پریس کانفرنسیں کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ پاکستان کے سارے مبصرین، تجزیہ نگار، نقاد اور اینکر حضرات اگر جرات و ہمت سے کام لیکر دونوں کپتانوں کے آگے پیچھے کھڑے کوچز اور سلیکٹروں سے بھی بے لاگ پوچھ گچھ کرنے لگیں تو راقم کو پوری امید ہے کہ ٹیم اور ملک، دونوں کے حالات بہتر سے بہتر ہو سکتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بلیوں کے گلے میں گھنٹی ڈالنے کے لیے پیش قدمی کب اور کون کرتا ہے۔