اگر جماعت اسلامی نہ ہوتی

642

سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے 1941 میں جماعت اسلامی کے قیام کا اعلان کیا لیکن جماعت اسلامی تو اس دن قائم ہو گئی تھی جب انہوں نے 1918ء میں 15 برس کی عمر میں قلم سنبھالا اور صحافت شروع کی۔ پھر الجمعیتہ دہلی کی ادارت سے ہوتا ہوا یہ سفر 1932ء میں ترجمان القرآن کے اجرأ تک پہنچا جو جماعت اسلامی کی بنیاد کا پتھر ثابت ہوا۔ جماعت اسلامی قیام پاکستان کے بعد جماعت اسلامی پاکستان بنی اور اس وقت سے جہد مسلسل کا عنوان بنی ہوئی ہے جماعت اسلامی میں جمہوریت، جماعت اسلامی میں شورائیت، جماعت میں احتساب، جماعت میں موروثیت کا نہ ہونا یہ ساری باتیں ایک دنیا جانتی ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان میں کبھی اقتدار میں نہیں رہی لیکن جماعت اسلامی کی موجودگی میں اس ملک کو راہ سے ہٹانے والوں کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ جماعت اسلامی کو مٹانے، اس پر پابندی لگانے اور اس کے رہنمائوں کو گرفتار کرنے اور لٹریچر ضبط کرانے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں لیکن انتہا پسند اور دین بیزار حکمران بھی صرف جماعت اسلامی کی موجودگی کی وجہ سے پاکستان کو مصطفیٰ کمال کا ترکی یا جمال عبدالناصر کا مصر نہیں بنا سکے۔ بھٹو نے چین سے مدد لی، مائو کیپ پہنی اور سوشلزم کا نعرہ لگایا لیکن جماعت اسلامی میدان میں تھی اور اس نے زیادہ زور سے اسلام کا نعرہ لگا رہی تھی تو بھٹو کو اسلامی سوشلزم کی بے معنی اصطلاح گھڑنی پڑی۔ جنرل ضیا الحق ایک ایجنڈے کے تحت اقتدار میں آئے لیکن نظام مصطفیٰ کے جماعت اسلامی اور دیگر اسلامی جماعتوں کے مطالبے سے جان نہیں چھڑا سکے۔ جماعت اسلامی پر پولیس اور عدالتوں کے ذریعے سب سے زیادہ سختی ایوب خان کے دور میں پھر بھٹو دور میں ہوئی۔ جنرل ضیا دور میں پیدا ہونے والی لسانی جماعت ایم کیو ایم کے ذریعے جماعت اسلامی پر تاریخ کا بدترین تشدد ہوا لیکن اس تشدد کے باوجود جماعت اسلامی ملک میں نظام مصطفیٰ کے نفاذ کی جدوجہد اور فریضۂ اقامت دین کے کام سے ایک لمحے کے لیے بھی باز نہیں آئی۔ کہا جاتا ہے کہ جمہوریت میں بندوں کو گنا جاتا ہے اور ایسا ہی ہے لیکن جو لوگ مغربی جمہوریت میں بندوں کو گنا کرتے ہیں اور جماعت اسلامی کو کم نشستوں کی بنیاد پر چھوٹی جماعت قرار دیتے ہیں وہ بھی جماعت اسلامی کا وزن محسوس کرتے ہیں۔ اگر اس ملک میں جماعت اسلامی نہ ہوتی تو دروس قرآن کے ہزار ہا اجتماعات نہ ہوتے۔ تعلیمی اداروں میں اسلام بیزار طبقے کا مقابلہ کوئی نہ کرتا بلکہ اس کا شعور ہی مٹ جاتا کہ یہ لبرل ازم وغیرہ بھی کوئی بلا ہے جو اگلی نسلوں کا دین ہی بگاڑ دے گا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی نہ ہوتی تو ڈاکٹر نذیر، پروفیسر غفور، میاں طفیل، سید منور حسن، عبدالستار افغانی، نعمت اللہ خان اور ان جیسے سیکڑوں فقیر منش جری اور با صلاحیت لوگ نہ ملتے۔ بلکہ اس حقیقت سے تو بھٹو، عبدالحفیظ پیرزادہ اور کئی دیگر رہنما اتفاق کرتے ہیں کہ جماعت اسلامی نہ ہوتی تو 1973ء کا دستور متفقہ طور پر منظور نہ ہوتا۔ سب سے بڑھ کر سیاست میں شرافت اور شائستگی کے بارے میں لوگ لا علم رہ جاتے۔ پاکستان میں جس قسم کی سیاست ہوتی ہے اور روز بروز اس کا معیار گرتا جا رہا ہے۔ جماعت اسلامی نے اس کے بالکل بر خلاف سیاست کی ہے۔ اس جماعت کا پروگرام بہترین، اعلیٰ اوصاف کی حامل قیادت، بہترین لٹریچر، مضبوط ترین تنظیم مرکز سے حلقہ جات تک مستحکم نظام پورے ملک میں کارکن اور کام لیکن یہ جماعت الیکشن ہار جاتی ہے۔ اس حوالے سے سید مودودیؒ کا فارمولا بالکل الٹ ہے۔ ان کے خیال میں جماعت کبھی نہیں ہارتی۔ انتخابات کو جماعت اسلامی اپنا پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے استعمال کرتی ہے اور اس میں ہمیشہ کامیاب رہی ہے۔ اگر کسی جگہ حقیقی ووٹنگ ہو جائے اور لوگ جماعت اسلامی کو مسترد کر دیں تو شکست جماعت یا حق کی نہیں حق کو مسترد کرنے والوں کی ہوتی ہے۔ پاکستان میں قرآن فہمی کے لیے با ترجمہ قرآن کلاسز، فقہ کی کلاسز، شریعہ کے مختصر کورسسز، مختلف دینی مدارس اور بڑے بڑے ریسرچ انسٹی ٹیوٹس کا قیام یہ سب جماعت اسلامی کا حصہ ہے۔ اب بہت سے لوگ یہ کام کر رہے ہیں۔ اس جماعت کے سایہ میں اسلامی جمعیت طلبہ بھی قائم ہوئی اور اب یہ نرسری ملک میں مستقبل کی قیادت فراہم کر رہی ہے۔ پاکستان کی بہت سی اہم سیاسی جماعتوں میں جتنے بھی رہنمائوں کو لوگ شائستہ با صلاحیت، جری اور نڈر سیاستدان کہتے ہیں ان میں سے بہت سے جماعت اسلامی سے وابستہ رہے ہیں۔ پاکستان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان بنانے اور یہاں قرآن و سنت کی بالادستی کی جدوجہد جماعت اسلامی کی بنیاد ہے۔ اس کا پیغام بھی عام ہے۔ اب تو جماعت اسلامی نے حکومت، فنڈز اختیارات وغیرہ کے بغیر ہنگامی حالات میں قوم کی خدمت کے جو کام کیے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ جماعت یہ کام پہلے بھی کرتی تھی اب بھی کر رہی ہے اور آئندہ بھی کرتی رہے گی۔ فیصلہ تو قوم کو کرنا ہے۔