سیاسی بسترا

325

یہ جو ہمارے ہاں آئے دن سیاسی بحران آتے رہتے ہیں اس کی بنیادی وجہ سیاست کا فقدان ہے۔ سیاسی فقدان کسی بھی قوم کا بڑا المیہ ہے ہمارے ہاں سیاست دانوں کی کوئی کمی نہیں حتیٰ کہ ہر اخبار بین خود کو سیاست دان سمجھتا ہے۔ من حیث القوم جب تک ہم کھانے کے بعد سیاست پر گفتگو نہ کریں ہمارا کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ سیاسی بحران اس وقت سر ابھارتے ہیں جب سیاست میں پیش بینی کا عنصر ختم ہوجاتا ہے۔ اگر ہم اپنے سیاست دانوں کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو علم ہوگا کہ ہمارے ہاں بہت کم سیاست دان ایسے ہیں جو پیش بینی کی صلاحیت رکھتے ہیں اور آنے والے وقت کے سیاسی مسائل کو سمجھنے کی خوبی رکھتے ہوں، اس ضمن میں وفاقی وزیر ریلوے نمایاں دکھائی دیتے ہیں، آثار وقرائن بتارہے ہیں کہ شیخ رشید نے سیاسی بوریا بسترا لپیٹنا شروع کردیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ شیخ صاحب کا سیاسی بسترا کون کھلواتا ہے۔ شیخ جی سیاسی مرشد تو نہ بن سکے حالانکہ موصوف نے اس معاملے میں ایک سیاسی جماعت بھی بنائی مگر بات نہ بن سکی، شیخ جی کچھ عرصے سے پیش گوئیاں بھی فرما رہے ہیں۔ کہتے ہیں میں عثمان بزدار کو کہیں جاتے نہیں دیکھ رہا ہوں اور نہ ہی عمران خان کی حکومت وقت سے پہلے جائے گی۔ تحریک انصاف پانچ سال پورے کرے گی اگر ہم موصوف کی پیش گوئیوں کا جائزہ لیں تو ہمیں پیر پگاڑا کہیں دکھائی نہیں دیتے البتہ مرزا غلام محمد قادیانی کی ہلکی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ زیادہ غور سے دیکھنے پر یہ جھلک بھی غائب ہوجاتی ہے۔ کیونکہ قادیانی کے نام سے جو پیش گوئیاں چھپواتے تھے وہی ان پر عمل بھی کراتے تھے۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ شیخ جی جنہیں پیش گوئیاں کہہ رہے ہیں وہ تو افواہوں کی زمرے میں بھی نہیں آتیں۔ وطن عزیز کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت بھی میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کی طرح اپنی مدت پوری کرے گی۔ اور یہ بھی طے شدہ حقیقت ہے کہ جب تک عمران خان وزارت عظمیٰ پر براجمان ہیں عثمان بزدار پنجاب کے وزیر اعلیٰ بلکہ پنجاب کے وزیر اعظم ہی رہے گے سو چبائے ہوئے لقموں کو چبانا پیش گوئی کی توہین ہے۔ ایک ایسی توہین جو عدالت کے دائرہ اختیارات سے باہر ہے۔
ایک اور پیش گوئی بھی ہے جس پر شیخ جی بہت نازاں ہیں اور بڑے فخر کے ساتھ اسے فرماتے رہتے ہیں کہتے ہیں کہ ان سے زیادہ عمران خان کو کوئی نہیں جانتا، اللہ نے انہیں ایسی صلاحیت دی ہے کہ وہ عمران خان کی سوچ تک بھی رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ سو ان کا دعویٰ ہے کہ عمران خان کسی بھی این آر او نہیں دیں گے حالانکہ وزیر اعظم عمران خان نے تو این آر او کا جمعہ بازار لگایا ہوا ہے۔ جہانگیر ترین کو ملک سے باہر بھیجنا این آر او نہیں تو کیا ہے شاید شیخ جی کی لغت میں این آر او کا معنی کچھ اور ہیں۔ حالیہ انٹرویو میں وزیر اعظم عمران خان نے اپنی ہی مظلومیت کا رونا جی بھر کے رویا ہے مگر جب عوام کی مظلومیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو اسے مافیاز کی ذمے داری قرار دے دیا۔ سوال یہ ہے کہ آپ کی حکومت کیا کر رہی ہے۔ اور آپ کی ذمے داریاں کیا ہیں غور طلب معاملہ یہ بھی ہے کہ آخر حکومت کون چلا رہا ہے۔ جہانگیر ترین کے ساتھ جو کچھ کیا گیا ہے اس نے عمران خان کے دل میں زخم ڈال دیے ہیں۔ اور آنکھیں خون کے آنسو بہا رہی ہیں انہوں نے جہانگیر ترین پر لگائے گئے الزامات کو سازش قرار دیا ہے۔ ظاہر ہے ان کی بات سے انکار کوئی ادارہ انکار نہیں کرسکتا سوچنے کی بات یہ ہے کہ مخالفین کے خلاف مقدمات بنتے ہیں۔ ان پر الزامات کے انبار لگائے جاتے ہیں تو وزیر اعظم اپنے اداروں کی شان میں رطب اللسان ہوجاتے ہیں مگر جب ان کے دوستوں اور خیر خو اہوں پر الزامات لگے ہیں مقدمات بنائے جاتے ہیں تو انہیں دکھ ہوتا ہے۔