شہادت سیدنا عمر، اور اسلام کا نظام عدل

427

آج کل بعض حضرات نے یہ بحث چھیڑ رکھی ہے کہ عمر فاروقؓ کا یومِ شہادت یکم محرم الحرام نہیں تھا، اول تو یہ ایک لایعنی بحث ہے، کیونکہ یہ کہیں بھی لازم نہیں ہے کہ یومِ شہادت اُسی دن منایا جائے، جس دن شہادت واقع ہوئی ہے، پوری امت سیدنا حسینؓ اور جمیع شہدائے کربلا رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت ِ اطہار اور اعوان وانصار کا یومِ شہادت دس محرم الحرام کو مناتی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اُس سے پہلے یا بعد میں نہیں منایا جاسکتا، سیدنا حسینؓ کی مجالسِ شہادت تو چہلم تک جاری وساری رہتی ہیں، میلاد النبی کی مجالس سارا سال جاری رہتی ہیں۔ نیز ایسے تاریخی شواہد بکثرت دستیاب ہیں کہ اَبُولُؤْلُؤَہ فیروز مجوسی نے آپ کو زہر آلود دودھاری خنجر سے ذوالحجہ کے آخری ایام میں فجر کی نماز پڑھاتے ہوئے زخمی کیا اور اُسی کے نتیجے میں آپ کی شہادت یکم محرم الحرام کو واقع ہوئی اور آپ کی تدفین عمل میں آئی۔
امام ابوجعفر طبریاپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں: ’’سیدنا عمرؓ کو 26ذوالحجہ 23ہجری کو زخمی کیا گیا اور یکم محرم الحرام 24ہجری کو آپ کی تدفین ہوئی، (المنتخب من ذیل المذیل)، امام اَبُونُعَیْم لکھتے ہیں: ’’سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں: سیدنا عمر کو 26 ذوالحجہ 23ہجری کو (قاتلانہ حملے میں) زخمی کیا گیا اور یکم محرم الحرام 24ہجری کی صبح آپ کی تدفین ہوئی، پس آپ کی خلافت دس سال پانچ ماہ اور اکیس دن رہی۔
علامہ ابن اثیر جزری نے ’’اُسد الغابہ‘‘ میں، علامہ یحییٰ بن شرف نووی نے ’’تَہْذِیْبُ الْاَسْمَائِ وَاللُّغَات‘‘ میں، علامہ ذہبی نے ’’سِیَرُ اَعْلَامِ النُّبَلَاء‘‘ میں، حاجی خلیفہ نے ’’سُلَّمُ الْوُصُوْل اِلٰی طَبَقَاتِ الْفُحُوْل‘‘ میں، علامہ علی القاری نے ’’مرقاۃ المفاتیح‘‘ میں اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے ’’لَمْعَاتُ التَّنْقِیْحِ‘‘ میں اسی طرح لکھا ہے، علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں:
’’جب سیدنا عمر فاروق بدھ 26ذوالحجہ کو محراب میں صبح کی نماز پڑھارہے تھے تو اَبُولُؤْلُؤَہ فِیْرُوزُنے (زہر آلود) دودھاری خنجر سے آپ پر حملہ کیا، اس نے تین وار کیے اور ایک روایت کے مطابق چھ وار کیے، اُن میں سے ایک وارآپ کے زیرِ ناف لگا توآپ گر پڑے، اس دوران آپ نے عبدالرحمن بن عوف کو نماز میں اپنا نائب بنایا، پھر وہ پلٹ کر نکلا، راستے میں جو آیا، اُن پر وار کرتا گیا حتیٰ کہ اُس نے تیرہ اشخاص پر ضرب لگائی، اُن میں سے چھ شہید ہوگئے، فیروز اصلاً ایرانی تھا، پھر عبداللہ بن عوف نے اُس پر کمبل ڈالا تو اس ملعون نے خودکُشی کرلی، سیدنا عمرؓ کو اٹھاکر ان کے گھر لے گئے، اُن کے زخم سے خون بہہ رہا تھا، یہ طلوعِ آفتاب سے پہلے کا واقعہ ہے، پھر آپ کبھی بے ہوش ہوجاتے اور کبھی ہوش میں آجاتے، جب ہوش میں آتے تو آپ کو نماز یاد دلائی جاتی، وہ کہتے: ہاں! جو نماز چھوڑ دے اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ہے، پھر اپنے وقت پر نماز پڑھتے، انہوں نے پوچھا: انہیں کس نے قتل کیا ہے، لوگوں نے بتایا: مغیرہ بن شعبہ کے غلام اَبُولُؤْلُؤَہ نے، تو انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ میری موت کسی مسلمان کے ہاتھ سے نہیں ہوئی، پھر کہا: اللہ اُس کا برا کرے، ہم نے تو اسے اچھی بات کا حکم دیا تھا، مغیرہ بن شعبہ نے اُس کے ذمے دو درہم یومیہ لگائے تھے، پھر انہوں نے سیدنا عمر سے پوچھا: کیا میں اُس کے محصول میں اضافہ کردوں، کیونکہ وہ کارپینٹر ہے، نقش ونگار کرتا ہے، لوہار ہے، تو انہوں نے اس کا محصول سو درہم ماہانہ کردیا اور اُس سے کہا: مجھے پتا چلا ہے کہ تم بہت اچھا کام کرتے ہو، تم ہوائی چکی بناتے ہو، اَبُولُؤْلُؤَہ نے کہا: میں ضرور آپ کے لیے ایک ایسی چکی بنائوں گاکہ لوگ مشرق ومغرب میں اُس کا ذکر کریں گے، یہ منگل کی شام کا واقعہ ہے اور بدھ 26ذوالحجہ کی صبح اس نے آپ کو خنجر گھونپ دیا، پھر سیدنا عمر نے اپنا جانشین منتخب کرنے کے لیے ایسے چھ اصحاب پر مشتمل کمیٹی بنائی کہ رسول اللہؐ اپنی وفات تک اُن سے راضی تھے اور وہ تھے: ’’حضرات عثمان، علی، طلحہ، زبیر، عبدالرحمن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم، (البدایہ والنہایہ)‘‘۔
علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں: ’’سیدنا عمر کا تین دن بعد انتقال ہوا اور محرم کی پہلی تاریخ ہفتہ کے دن مدفون ہوئے، نماز جنازہ صہیب نے پڑھائی، عبدالرحمن بن عوف، علی، عثمان، طلحہ، سعد بن ابی وقاص نے قبر میں اتارا اور وہ آفتابِ عالَم خاک میں چھپ گیا، (الفاروق)‘‘۔ ایک مصنف نے لکھا: ’’قاتل کا خنجر سینۂ عمر میں نہیں، قلبِ کائنات میں پیوست ہوگیا‘‘۔ سیدنا عمر کو ہمیشہ شہادت کی آرزو رہتی تھی، حدیث پاک میں ہے: ’’سیدنا عمرؓ نے یہ دعا کی: اے اللہ! مجھے اپنے راستے میں شہادت اور دیارِ رسول میں موت عطا فرما، (بخاری)‘‘، علامہ علی القاری لکھتے ہیں:
’’امام نووی نے کہا: دینی فتنے کے خوف سے موت کی تمنا کرنا مکروہ نہیں ہے، بلکہ مستحب ہے، امام شافعی اور عمر بن عبدالعزیز سے روایت ہے: اللہ کی راہ میں شہادت کی تمنا کرنا مستحب ہے، کیونکہ صحیح روایت کے ساتھ سیدنا عمر سے ثابت ہے‘‘۔ آگے چل کر لکھتے ہیں: نبیؐ نے فرمایا: جو شہادت کی سچی تمنا کرے گا، اُسے شہادت کا درجہ عطا کردیا جائے گا، خواہ اُسے شہادت نہ ملی ہو، (مسلم)‘‘ اور کسی مقدس مقام میں بھی موت کی تمنا کرنا مستحب ہے، چنانچہ سیدنا عمر نے دعا کی: اے اللہ! مجھے اپنی راہ میں شہادت عطا فرما اوراپنے رسولِ کریم کے شہر میں مجھے موت عطا فرما، ان کی صاحبزادی اُمُّ المومنین سیدہ حفصہ نے کہا: دونوں باتیں کیسے جمع ہوسکتی ہیں، سیدنا عمر نے فرمایا: اللہ چاہے گا تو عطا فرمادے گا، (طبقات ابن سعد، مرقاۃ المفاتیح)‘‘،
سیدنا عمر نے عدل کے بارے میں رہنما اصول وضع کیے، انہوں نے ابو موسیٰ اشعری کو قضا کے لیے مندرجہ ذیل ہدایات جاری فرمائیں:
(۱) قضا لازمی فریضہ ہے، (۲) قاضی کو مقدمے کے فریقین کے ساتھ مساوی سلوک کرنا چاہیے، (۳) بارِ ثبوت مُدّعی کے ذمے ہے، (۴) اگر مُدّعی کے پاس گواہ نہ ہوں اور مُدّعیٰ علیہ دعوے کو قبول کرنے سے انکاری ہو تو اُسے قسم دی جائے گی، (۵) فریقین کے مابین صلح کرائی جاسکتی ہے، لیکن ایسی صلح ہرگز روا نہیں جو حرام کوحلال کردے یا حلال کو حرام کردے، (۶) اگر قاضی کوئی فیصلہ کرچکا ہے، لیکن بعد میں اُس پر آشکار ہوا کہ فیصلہ درست نہیں تھا تو وہ اپنے فیصلے سے رجوع کرسکتا ہے، (۷) غیر معینہ مدت کے لیے مقدمات کو لٹکانا درست نہیں ہے، اگر مُدّعی ثبوت پیش کرنے کے لیے مہلت چاہتا ہے، تو اُس کے لیے میعاد مقرر کی جائے، اگر مقررہ میعاد پر وہ عدالت کے معیار پر ثبوت پیش کردیتا ہے تو اُسے اس کا حق دلادیا جائے، ورنہ اُس کا دعویٰ خارج کردیا جائے، (۸) ہر مسلمان شہادت دینے کے قابل ہے، سوائے اُن کے کہ جن کو جھوٹی تہمت پر کوڑے لگے ہوں یا جن کے بارے میں جھوٹی گواہی دینا ثابت ہو، جیسے ہماری عدالتوں میں جھوٹے گواہ ہروقت دستیاب ہوتے ہیں۔
اگر ہم ان اصولوں کی روشنی میں دیکھیں تو ہمارا نظامِ عدل اکثر صورتوں میں خلافِ اسلام ہے، خاص طور پر نیب کے بعض قوانین ضدِّ اسلام ہیں، لیکن اس ادارے کو ہر دور کے حکمران نے اپنے مخالفین کو دبانے یا سیاسی منظر سے ہٹانے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اسی طرح ’’پلی بارگین‘‘ کا اصول سراسر خلافِ اسلام ہے، نیز ثبوتِ جرم سے پہلے قید میں ڈالنا اور بارِ ثبوت مُدّعیٰ علیہ پر ڈالنا بھی خلافِ اسلام ہے۔ ہماری اعلیٰ عدالتیں ان قوانین اور نیب کے طرزِ عمل پر ریمارکس اور آبزرویشنز دیتی ہیں اور اپنے بعض فیصلوں میں سخت الفاظ میں تبصرے بھی کرتی ہیں، لیکن حکومتِ وقت کو اس کے ازالے یا اصلاح کے لیے کوئی قطعی حکم جاری نہیں کرتیں یا اصلاح تک ان قوانین کو معطل نہیں کرتیں، سو غلط ہے مگر چل رہا ہے۔