پھر این آر او کی رٹ

264

وزیراعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر این آر او کا نعرہ لگا دیا ہے۔ انہوں نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کہا کہ کچھ بھی ہو جائے این آر او نہیں دوں گا۔ ان کا برہم ہونا بجا لگتا ہے کیونکہ سینیٹ میں ایف اے ٹی ایف سے متعلق دونوں بل کثرت رائے سے مسترد کر دیے گئے ہیں۔ وزیراعظم نے اسے بلیک میلنگ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ سینیٹ میں بل مسترد کرکے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اپوزیشن کے مفادات ملک سے متصادم ہیں۔ لیکن وفاقی کابینہ نے جو بات نواز شریف کے ملک سے جانے کے بارے میں کہی ہے وہ خوب ہے کہ ای سی ایل سے نواز شریف کا نام ہائیکورٹ نے نکالا۔ یہ مخمصہ آج تک حل نہیں ہو سکا کہ نواز شریف ملک سے باہر کیسے چلے گئے۔ یہ بالکل اسی طرح گئے جس طرح جنرل پرویز مشرف ملک سے باہر چلے گئے۔ جس طرح جنرل پرویز کے باہر جانے میں حکومت کی نااہلی کو دخل تھا کہ وزیر داخلہ چودھری پرویز الٰہی سیکرٹری داخلہ وغیرہ کو یہ پتا ہی نہیں تھا کہ جنرل پرویز کے نا قابل ضمانت وارنٹ موجود ہیں۔ اسی طرح موجودہ وفاقی حکومت کو یہ نہیں معلوم تھا کہ نواز شریف کون کون سے مقدمات میں مطلوب ہیں اور ان کے خلاف حکومت کے کیا عزائم ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ نواز شریف کا ملک سے جانا بھی مک مکا یا این آر او ہی تھا۔ یہ تو ایک اصطلاح بن گیا ورنہ این آر او تو قومی مفاہمتی آرڈیننس کا مخفف ہے۔ میاں نواز شریف نے جنرل مشرف کے پاکستان سے جانے کو سر سے بلا کا ٹلنا تصور کیا تھا۔ تو موجودہ حکومت نے نواز شریف کے جانے کو مصیبت ٹلنا تسور کیا۔ اس وقت کی میڈیا کی اطلاعات کے نتیجے میں یہ تاثر تھا کہ نواز شریف آج موت سے ہمکنار ہوئے یا کل۔ ایسی صورت میں حکومت اپنی تحویل یا جیل میں نواز شریف کی موت نہیں چاہتی تھی ورنہ اس کو بڑا سیاسی دھچکا لگتا۔ لیکن اتنی تشویشناک حالت میں ملک سے جانے کے مہینوں بعد بھی نواز شریف کو کچھ نہیں ہوا تو یہ خیال پھر آیا ہے کہ نواز شریف کو واپس لایا جائے۔ اب پھر کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف نے بیماری کا عذر پیش کر کے ضمانت حاصل کی اور شہباز شریف نے گارنٹی دی تھی۔ وزیراعظم پھر کہہ رہے ہیں کہ ہم بلیک میل نہیں ہوں گے واپسی کے لیے تمام اقدامات کریں گے۔ لیکن کیسے کریں گے اس کا تو ان کو بھی اندازہ نہیں۔ اب تو احتساب میں تاخیر اور پورے خاندان کو گھسیٹنے کے نتیجے میں پنجاب میں میاں نواز شریف سے ہمدردیاں بڑھ رہی ہیں۔ نواز شریف کی پاکستان واپسی کے ساتھ حکومت مخالف قوتوں کو زیادہ تقویت ملے گی اور ممکن ہے جس چیز کو وزیراعظم بلیک میلنگ کہہ رہے ہیں یہ وہی این آر او ہے جس کا کسی کو پتا ہی نہیں چل رہا کہ کون مانگ رہا ہے کس سے مانگ رہا ہے۔ اور بلیک میل تو وہی ہوتا ہے جس کی کچھ کمزوریاں مخالفین کے پاس ہوں۔ تو وزیراعظم اس کا بھی تذکرہ کر دیں کہ انہیں کون بلیک میل کر رہا ہے۔ یہ بات بھی بڑی عجیب ہے کہ اگر اپوزیشن نے سینیٹ میں ایف اے ٹی ایف اکثریت سے مسترد کر دیا ہے تو اسے ملک دشمنی قرار دیا جائے۔ یا بلیک میلنگ کہا جائے۔ دو روز قبل وفاقی وزیر اطلاعات نے بھی اپوزیشن کی تجاویز کو این آر او قرار دے دیا تھا۔ اس طرح کا رویہ بتا رہا ہے کہ حکومت کی صفوں میں کمزوری آرہی ہے اور وہ اب اپنے سائے سے بھی بدکنے لگے ہیں۔ وفاقی کابینہ کے اجلاسوں کا محور کراچی اور سندھ کا ڈوبنا نہیں۔ بارش سے تباہی نہیں۔ بھارت کی جانب سے آبی دہشت گردی نہیں۔ کشمیر نہیں بلکہ نواز شریف ہے۔ پی ٹی آئی نے نواز شریف اور مسلم لیگ ن کو جتنا مضبوط کیا ہے اتنا تو مسلم لیگ خود اپنی مہم چلا کر مضبوط نہیں ہو پاتی۔ پی ٹی آئی کو ملک میں تبدیلی لانے کے مواقع ملے ہیں۔ وزیراعظم کا اپنا بیان بھی ریکارڈ پر ہے اور فوجی ترجمان کا بھی کہ فوج حکومت کے ساتھ ہے۔ پھر انہیں کیا خوف ملک میں معاشی تبدیلی لائیں۔ عوام کو خوش حال بنانے پر توجہ دیں، برآمدات میں اضافہ کریں، عوام کی بنیادی ضروریات پوری کریں۔ تبدیلی آجائے گی۔ ورنہ ہر تبدیلی کے لیے ایک تبدیلی سر پر کھڑی ہے۔ جس سے حکومت بھی آج کل خوفزدہ ہے۔