ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشن صدر ٹرمپ کا تازہ ترین حکم لیکر پہلے مرحلے میں عرب مارات پہنچنے والے ہیں منصوبے کے مطابق امریکی صدر دونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے لیے اکتوبر میں امریکا 5 مسلم عرب ممالک کے سر براہ یا ان کے وزیر خارجہ ’’رپبلیکن کے کنونشن میں شریک ہو کر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے ’’معاہدۂ امن‘‘ پر دستخط کریں گے۔ اس سلسلے میں ہونے والی تقریب میں امریکی صدر ٹرمپ کے علاوہ اسرائیل وزیر اعظم نیتن یاہو سمیت دنیا بھر کے اسرئیل کے حامی ممالک شریک ہوں گے۔
امریکا کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو منگل 25اگست کو صبح سویرے اسرائیل کا دورہ مختصر کرکے خرطوم پہنچ گئے جہاں وہ سوڈان کی سول حکومت سے ملاقات کریں گے۔ ’’سوڈان کی حکومت نے امریکا سے کہا ہے کہ اسرئیل کو تسلیم کرنے پہلے سوڈان کا یہ مطالبہ ہے کہ: ’’1998ء میں امریکا نے سوڈان پر دہشت گردی کا الزام لگا کر اس کو دہشت گرد ملک قرار دے دیا تھا جس کی وجہ سے سوڈان کو دنیا سے عسکری تعلقات میں بے پناہ مشکل کا سامنا ہے ۔ اس پابندی کو فوری ختم کیا جائے‘‘۔
خرطوم ایک مرتبہ پھر عرب سیاست میں اہمیت اختیار کرچکا ہے اور پتا چلا ہے کہ آئندہ دو دنوں میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو، امریکی قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ ابراہم، ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر (jared kushner) مشرق وسطیٰ کے انچارج امن ایوی برکوویٹز کے ساتھ عرب ملکوںکا دوربھی کریں گے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ’’اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے سربراہ یوسی کہن‘‘ بھی سوڈان کے اعلیٰ انتظامی افسران سے ملاقات کے بعد فوری طور پر تل ابیب پہنچ گئے ہیں اس سلسلے میں معلوم ہوا ہے کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے سربراہ یوسی کہن سوڈان کی حکومت سے اہم ملاقات کے بعد خرطوم پہنچے تھے لیکن ان کو صرف ایک افسر سے ملاقات کے بعد واپس تل ابیب بھیج دیا گیا۔ اس سلسلے میں اسرائیلی اخبار HAARETZ کا کہنا ہے کہ:Mossad Chief Met With Top Sudanese Officialاس کے علاوہ ٹرمپ کابینہ کے اہم ارکان جنرل اور قومی سلامتی کے سربراہ عرب امارات عمان اور سوڈان کا بھی دورہ کریں گے۔ THE Jerusalem Post “Pompeo to Visit Israel, UAE this week following Peace Deal”
فوج کابینہ اور سول انتظامیہ مشترکہ دورۂ عرب کے آخر میں اسرائیل بھی جائیں گے اور قطر میں طالبان امریکا مذاکرات کے لیے یہ فوج ظفر موج دو دن کے لیے قطر میں بھی قیام کرے گی۔ یوں ان دوروں کا مقصد یہ بتایا جارہا ہے کہ عرب ملکوں میں قیام امن کے لیے یہ دورہ کیا جارہا ہے، لیکن عالمی تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم نہ کیے جانے کے اعلان کے بعد عرب میں پیدا ہونے والی صورت حال اور امارات کو عربوں میں تنہا ہونے سے بچانے کے لیے یہ دورہ اچانک تیار کیا گیا۔ اس دورے کا مقصد یہ ہے کہ قطر، عمان، سوڈان، تیونس جنہوں نے بہت پہلے سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا کو مستحکم کیا جائے۔ اس دورے میں امریکی ارکان کے ناموں پر غور کیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اس دورے کے دوران تجارت، صنعت، معاشی ترقی میں مدد اور دوطرفہ خوشگوار تعلقات کے بجائے دھونس، دھمکی، معیشت کی تباہ کاری کے خوف کو اُبھارتے ہوئے اس بات کا تاثر پیدا کیا جائے کہ اگر اسرائیل کو تسلیم نہ کیا گیا تو کسی بھی ملک کو ’’بیروت‘‘ بنایا جاسکتا ہے۔ اسی لیے اسرائیل اور امارات معاہدے کو صدر ٹرمپ نے ’’ابراہم ریکارڈ‘‘ نام دیا تھا اور امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’’اسرائیل کو تسلیم کرنے والے عرب ملکوں کے لیے امن منصوبہ ہے‘‘۔
لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسرائیل اور امارات یا کسی عرب ملک کے درمیان کوئی جنگ جاری تھی جس کی وجہ سے اسے ’’ابراہم ریکارڈ‘‘ اور امن معاہدہ قرار دیا جارہا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ جسارت نے اس ڈیل کے بارے میں لکھا تھا کہ اس کی تکمیل میں 3 ہفتے لگ سکتے ہیں لیکن تازہ ترین صورتحال کے پیش نظر آئندہ ہفتے امریکا اس ڈیل کو امارات سے زبردستی مکمل کرانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر ٹرمپ کابینہ کا دورہ امارات تیار کیا گیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسرائیل امارات ڈیل سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کے تسلیم نہ کیے جانے کی خبروں کی وجہ سے کھٹائی میں پڑ جائے۔ اس لیے امریکی انتخابات سے قبل نہ صرف اس ڈیل کی کاغذی کارروائی مکمل کی جائے بلکہ اس ڈیل پر عمل درآمد بھی کیا جائے۔
عرب امارات ڈیل کا ایک مقصد یہ بھی بتایا جارہا تھا کہ ا مریکا سے امارات کے دفاع کے لیے ’’F-35‘‘ جدید ترین سپر سونک اور ایٹمی میزائل فائر کرنے کی صلاحیت سے لیس جہاز فروخت کرنے کے معاہدے کو اس بات سے نتھی کردیا تھا کہ امارات اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کرے اور F-35 کو اسرائیل اور بھارت کے استعمال نہ کرنے کی اضافی شق کو جہاز فروخت ڈیل کا حصہ بنائے۔ ابھی اسرائیل امارات ڈیل کا کاغذی شکل میں آنا باقی ہے کہ بھارت نے F-35 امارات کو دینے پر اعتراض کردیا۔ The EurAsian Times کا کہنا ہے کہ! بھارتی سوال کر رہے ہیں کہ!
How China & Pakistan could Lay Hand on The US most Advanced Fighter Jet -The F-25
ایسا نہ ہو کہ F-25 پوری ٹیکنالوجی امارات ’’چین دفاعی پیک‘‘ کے تحت فوری طور پر چین منتقل ہو جائے اور بہت کم عرصے میں چین بھی F-25 بنانے میں کامیاب ہو جائے۔ اس پوری صورتحال نے یہ بات ایک مرتبہ پھر واضح کر دی ہے کہ بھارت، امریکا، اسرائیل گٹھ جوڑ عالم اسلام کو دھوکے دینے کے سوا کچھ نہیں۔ ڈیل دھونس، دھمکی اور معاشی تباہ کاری کے خوف کا ایک کھیل ہے۔ اس سے امارات کو کچھ نہیں ملنے والا۔ سوڈان میں کیا ہونے والا ہے اس سے پہلے یہ بتاتا چلوں کہ ’’سوڈان کے آرمی چیف جنرل عبدالفتح برہان‘‘ کی اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے خفیہ ملاقات کا سوڈان کی سول حکومت نے سخت نوٹس لیتے ہوئے ان کو برطرف کرنے پر غور شروع کر دیا ہے جس پر پوری امریکی انتظامیہ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ سوڈان کو راضی کرنے لیے متحدہ عرب امارات کا سہارا لیا جارہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ’’عمر البشیر‘‘ کی برطرفی اور موجود سول فوجی حکومت کے قیام کے وقت متحدہ عرب امارات نے سوڈان کی معیشت کی بحالی کے لیے 3ارب ڈالر کی بھاری رقم فراہم کی تھی۔ اب ’’منہ کھائے اور آنکھ شرمائے‘‘ کے فارمولے کے تحت امریکا ایک مرتبہ پھر اسرائیل کی محبت میں متحدہ عرب امارات کو سوڈان کو منانے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔1967ء میں خرطوم اجلاس میں ایک اہم اعلان تمام عرب ممالک نے کیا تھا کہ ’’اسرائیل کو کسی صورت تسلیم نہیں کریں کے۔ اب اس بات کو 53سال بیت چکے ہیں۔ لیکن بات تو بات ہوتی ہے بس عربوں کو یہی ثابت کرنا ہیکہ وہ کہاں تک کامیاب ہیں 53برس پہلے کی باتوں پر عمل کر نے میں۔