محرم الحرام: ریاست مدینہ کا قیام

397

محرم الحرام کی آمد کے ساتھ ہی پورے ملک میں افراتفری سی مچ جاتی ہے۔ سیکورٹی کے انتظامات سخت کردیے جاتے ہیں۔ نویں اور دسویں محرم کو عام تعطیل اس طرح کی جاتی ہے کہ سڑکیں تو کجا چھوٹی چھوٹی گلیاں بھی قناتیں لگا کربند کردی جاتی ہیں۔ دفعہ 144کا نوٹی فیکیشن، موٹر سائیکل کی ڈبل سواری اور پانچ افراد کے ایک جگہ جمع ہونے پر پابندی نافذ ہوجاتی ہے۔ یکم محرم سے دس محرم تک شہروں میں اسلحہ کی نمائش اور وال چاکنگ اور بینرز لگانے کی بھی ممانعت ہوتی ہے۔ امن وامان کی صورت حال کو قابو میں رکھنے کے لیے پولیس کی نفری اور ڈیوٹی میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔ عدم تحفظ کے اس ماحول میں اس طرف خیال ہی نہیں جاتا کہ یکم محرم الحرام کو ہجرت کا عظیم واقعہ پیش آیا تھا جس کے نتیجے میں رسالت مآب محمد عربیؐ نے مدینہ منورہ میں ایک اسلامی ریاست قائم کی تھی اور دین کو غالب اور عملاً نافذ کرکے دکھایا تھا۔
مکہ میں اسلام کی دعوت کے چرچوں سے اہل قریش غضبناک تھے۔ ان کے دل غصے سے کھول رہے تھے لیکن رسالت مآبؐ نے بغیر کسی وقفے اور ٹھیرائوکے ان کے خلاف مسلسل اور مستقل محاذ کھولے رکھا۔ یہ ایک شدید ترین دور کی ابتدا تھی۔ ایک طرف سید الرسلؐ، صحابہ کرام اور دوسری طرف کفار مکہ۔ اس موقع پر آپؐ، صحابہ کرامؓ کو ایسے ظلم، تشدد اور جبر کی آزمائشوں کو برداشت کرنا پڑا جو پہاڑوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیںلیکن آپؐ بغیر کسی شکستگی، خوف، اکتاہٹ، تھکاوٹ اور ہر قسم کے اندیشوں سے بے نیاز دعوت وتبلیغ میں لگے رہے۔ اس مایوس کن صورتحال میں بھی آپؐ کے اعتماد اور امید میں کوئی کمی نہیں آئی۔ انہیں یقین تھاکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی مدد ضرور آئے گی اور یقینا دین غالب آکر رہے گا۔ ایسے میں مدینے سے آئے ہوئے خزرج قبیلے کے کچھ پاکیزہ صفت لوگوں کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے آپؐ کی طرف بھیجا۔ یہ ملاقات فتح کی نشانی تھی۔ اس واقعے کے اگلے سال مدینے سے بارہ افراد پر مشتمل ایک جماعت آئی۔ ان لوگوں نے حج کیا اور آپؐ سے عقبہ کے مقام پر ملاقات کی۔ انہوں نے اسلام قبول کیا اور آپؐ سے بیعت کی۔ یہ بیعت عقبہ اولی تھی۔ ابن اسحاق کی روایت ہے کہ جب یہ لوگ مدینہ واپس جانے لگے رسول اللہؐ نے اہل مدینہ کو قرآن، اسلام کی تعلیم اور دین کا فہم سکھانے کے لیے سیدنا مصعب بن عمیر ؓ کو ان کے ہمراہ بھیج دیا۔
سیدنا مصعب بن عمیر ؓ نے مدینے میںدعوت وتبلیغ کا کام اس جذبے سے شروع کیا کہ مدینے میں کوئی ایسا دروازہ نہ تھا جس پر انہوں نے دستک نہ دی ہو۔ آپؓ کے اخلاص اور جاں سوزی کی وجہ سے ان کی بات دلوں میں گھر کرنے اور روحوں کو اپنا اسیر بنانے لگی۔ لوگ پے در پے اسلام میں داخل ہونے لگے۔ ایک سال کے اندر اندر مدینہ شرک سے اسلام میں بدل گیا۔ اگلے برس مدینے سے آنے والوں کی تعداد 75تھی۔ آپؐ نے ان لوگوں سے رازداری سے رابطہ قائم کیا اور ان سے ایک اور بیعت پر گفتگو فرمائی جو محض دعوت پھیلانے اور مصائب پر صبرکرنے پر نہ تھی۔ یہ ایک ایسی بیعت تھی جو ایک ریاست کا سنگ بنیاد بنے۔ وہ ریاست جس کی جڑیں معاشرے میں ہوں، جو اسلام کے پیغام کو پوری انسانیت تک لے کر جائے اور اسلامی دعوت کے پھیلائو اور اسلامی احکام کے نفاذ کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو مادی قوت سے ہٹاسکے۔
بیعت ثانی کے لیے یہ ملاقات عقبہ کے مقام پر ہوئی۔ آپؐ نے انہیں اسلام کی دعوت دی، کچھ آیات قرآنی تلاوت کیں۔ اس موقع پر خزرج کے لوگوں نے آپؐ کی حفاظت کرنے اور ایک ساتھ جینے مرنے پر بیعت کی۔ اس موقع پر سیدنا عباسؓ نے ان سے کہا کہ اے خزرج کے لوگو! کیا تمہیں احساس ہے کہ تم یہ بیعت کرکے خود کو کس وعدے کے سپرد کررہے ہو؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم ہر خاص وعام، سرخ وسفید اور کالے سے لڑو گے۔ اگر تم یہ سمجھ رہے ہو کہ جب تم اپنا مال کھودو گے اور تمہارے معزز افراد قتل کردیے جا ئیںتو تم اس شخص (صلی اللہ علیہ وسلم) کو چھوڑ دو گے، تو بہتر ہے ابھی چھوڑ دو کیو نکہ اگر تم نے بعد میں ایسا کیا تو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ تمہیں اس دنیا اور آخرت دونوں میں شرمسار کردے گا لیکن اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ تم اپنی بیعت پر قائم رہو گے چاہے تمہیں مال واسباب کا نقصان ہو یا تمہارے معزز لوگ قتل ہوں تو اس (محمدؐ) کو اپنے ساتھ لے جائو، اللہ کی قسم یہ دنیا وآخرت کی کامیابی ہے۔ انصار نے جواب دیا ’’اے اللہ کے رسولؐ اپنا ہاتھ بڑھائیں تاکہ ہم آپؐ کو بیعت دیں‘‘۔ آپؐ نے اپنا ہاتھ بڑ ھایا اور انہوں نے بیعت دی۔ اس دوسری بیعت عقبہ کے بعد رسالت مآب سیدنا محمدؐ نے مدینے کی سمت ہجری کی۔
ہجرت کا عظیم واقعہ اس وقت پیش آیا جب سید المرسلین محمدؐ نے دیکھ لیا کہ انصار نے اسلام کو صرف عبادات اور اخلاقیات کے مذہب کے طور پر نہیں بلکہ ایک جامع عقیدے اور مکمل نظام زندگی کے طور پر قبول کیا ہے۔ اگر اسلام صرف فرد کی عبادات اور اخلاقیات کا نام ہوتا تو قریش کے لوگ اس شدت کے ساتھ اسلام کے مقابل کھڑے نہ ہوتے، اگر اسلام صرف فرد کی عبادت اور اخلاقیات کا نام ہوتا تو مغربی اقوام اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے لیے صلیبی جنگیں شروع نہ کرتیں جو آج تک جاری ہیں۔ وہ اسلام کے خلاف مہم چلاتے ہیں، طویل جنگیں برپا کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اسلام محض عبادات اور اخلاقیات تک محدود نہیں ہے بلکہ سیاست اور ریاست سمیت زندگی کے تمام امور کا احاطہ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی ہجرت کے بعد عالی مرتبت محمدؐ نے مدینے کی سرزمین پر قدم رکھا، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی وحی کے مطابق اسلام کے قوانین کا نفاذ شروع کردیا۔
آپؐ نے مدینے میں مسجد تعمیر کروائی، ایک ایسا مرکزی مقام اور ہیڈ کواٹر جہاں سے مسلمانوں کی نہ صرف عبادت بلکہ زندگی کے تمام امور کے بارے میں احکامات جاری کیے جائیں اور ان کے تمام امور کی نگرانی کی جائے۔ پھر آپؐ نے میثاق مدینہ تحریر کروایا جو ریاست کا آئین اور دنیا کا پہلا تحریری معاہدہ تھا۔ جس میں ریاست کے شہریوں کے مابین تعلقات کی نوعیت اور حقوق وفرائض بیان کیے گئے تھے۔ آپؐ نے زندگی کے تمام شعبوں میں احکام شریعہ کو نافذ کرنا شروع کیا جو ان احکامات کی خلاف ورزی کرتا ان پر اسلامی سزائیں نافذ کرتے۔ مدینہ وہ ریاست تھی جس کے سربراہ رسول اللہؐ تھے۔ آپؐ پر وحی نازل تو رسول کی حیثیت سے ہوتی آپؐ اسے لوگوں تک پہنچاتے اور ریاست کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے اسے نافذ فرماتے۔
پوری دنیا تک دین مبین پہنچانے کے لیے آپؐ نے جہاد کے احکامات جاری کیے، جنگ کے علم اپنے مبارک ہاتھوں سے باندھے اور فوجی مہمات روانہ کیں تاکہ مدینے کی ریاست کی طاقت کا اعلان ہو اور اس کا مظاہرہ کیا جاسکے۔ آپؐ نے لوگوں کو صرف اسلام کی دعوت ہی نہ دی بلکہ اسلام کی بنیاد پر حکمرانی بھی کی۔ ماہ محرم میں مسلمانوں کو اس بات کی خوشی بھی منانی چاہیے کہ اس ماہ میں ہجرت کے بعد مدینے میں اسلامی ریاست قائم ہوئی اور لوگ لشکر در لشکر اسلام میں داخل ہوئے۔ ماہ محرم میں کئی نفوس قدسیہ کی المناک شہادت کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ مسلمان ہجرت کے حقیقی مقصد اور مفہوم کو سمجھیں۔ عبادات اور اخلاقیات کے ساتھ ساتھ اسلام کی حکمرانی کے معاملے کو اپنی زندگی کا مرکزی معاملہ بنائیں۔ نبوت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اہل دنیا کو ایک مرتبہ پھر خلافت راشدہ کے روشن ماہ وسال کی طرف لے جائیں۔