کراچی میں بارشوں سے ہونے والی تباہی! 

392

ملک کے سب سے بڑے شہر میں نوے سالہ تاریخی بارشوں سے سب کچھ تو بہہ گیا مگر اپنی تمام خرابیوں اور خامیوں کے ساتھ ’’کے الیکٹرک‘‘ بچی ہوئی ہے۔ ہمیشہ کی طرح لوڈشیڈنگ کے ساتھ فعال ہے۔ عدالت نے حکم دیا تھا کہ کے الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹو اور ڈائریکٹرز کو گرفتار کیا جائے، ان کی ضمانتیں نہیں ہونی چاہییں مگر یہ سب کے سب ضمانت قبل از گرفتاری لے چکے اور اب اپنی ضمانتوں میں توسیع بھی کامیابی کے ساتھ کروا رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس ادارے کے خلاف کارروائی کے لیے کوئی قانون ہی نہیں ہے، یہ اس قدر بااثر ادارہ ہے کہ جس پر چیف جسٹس کے حکم نما ریمارکس کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا۔ یہ ادارہ کسی کی سنے یا نہ سنے لیکن اپنے مفاد میں کبھی گیس کی کمی ، کبھی گرمی کی شدت اور اب بارش کی وجہ سے تواتر سے بجلی بند کرکے اپنی بچت کرنے میں مصروف ہے۔ شہریوں کی مجبوری ہے کہ وہ اسے بھی برداشت کررہے ہیں جیسے دیگر اداروں کی ہٹ دھرمی، نااہلی اور چشم پوشی کو برداشت کررہے ہیں۔ دیگر ادارے ہی نہیں کراچی کے نصیب میں گزشتہ بارہ سال سے خون چوس لینے کے مترادف پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ جس کے وزیراعلیٰ مرادعلی شاہ جو سابق وزیراعلیٰ عبداللہ شاہ کے بیٹے ہیں اور کراچی کی این ای ڈی یونیورسٹی سے کوٹے یا پھر سیاسی اثر ورسوخ کی بنیاد پر داخلہ حاصل کرکے اور دیگر تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسی شہر میں ملازمت اور سیاست کررہے ہیں مگر انہیں اس شہر کا حق ادا کرنے کا احساس نہیں ہوتا۔
ان دنوں بارشوں سے شہر کے جو حالات ہوچکے ہیں اسے کنٹرول کرنے کے لیے وفاقی حکومت کے حوالے کرنے کے بجائے پاک نیوی کے سپرد کرنے کے چٹکلے عام ہورہے ہیں۔ کراچی کے باسی ہمیشہ ہی سے دل بہلانے اور اپنے چہروں پر مسکراہٹ برقرار رکھنے کے لیے ایسے ہی ہنسی مذاق کرتے رہتے ہیں۔ بارشوں سے یہ تو ثابت ہورہا ہے کہ سندھ میں ایک درجن سے زائد برسوں سے پیپلز پارٹی حکومت کررہی ہے جسے ایک غلط احساس اور خوش گمانی ہے کہ ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ کے نعرے کے تحت وہ بھی ہمیشہ زندہ رہے گی۔
وزیراعلیٰ مرادعلی شاہ نے چند روز قبل ایک ٹی وی چینل کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کا اظہار کیا کہ ’’کراچی کے مسائل کے حل کے لیے دس ارب ڈالر کی ضرورت ہے جو نہ ہمارے پاس ہے اور نہ ہی وفاقی حکومت کے پاس ہے‘‘۔ وزیراعلیٰ نے اس انٹرویو میں یہ نہیں بتایا کہ کراچی کی یہ حالات بنانے کا ذمے دار کون ہے اور ان کے خلاف کیا کارروائی کی جارہی ہے؟ ظاہر ہے وہ یا ان کی حکومت یہ بات کیسے قبول کرسکتی تھی کہ 2008 سے تاحال کراچی سمیت صوبے بھر میں ان کی یا ان کی حلیف جماعت متحدہ قومی موومنٹ کی حکمرانی رہی۔ اس دوران کراچی کو بہتر بنانے کے دعووں کے تحت بلدیہ عظمیٰ کراچی اور ضلعی بلدیاتی اداروں کو کنٹرول کرنے اور کے بی سی اے کو ایس بی سی اے، صفائی ستھرائی کی بلدیاتی اداروں کی بنیادی امور کی ذمے داریاں کو اپنی گرفت میں لینے کے لیے سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ بنانے کے سوا اس حکومت نے کوئی بڑا یا چھوٹا کام نہیں کیا اور نئے اداروں سے بھی صرف وہی کام لیا جس سے کراچی کو براہ راست نقصان پہنچ سکے۔ سب ہی کو معلوم ہے کہ کے بی سی اے کے ایس بی سی اے بننے کے بعد غیرقانونی تعمیرات عروج پر پہنچیں۔ نارتھ ناظم آباد، ناظم آباد، گلستان جوہر، گلشن اقبال، پی ای سی ایچ سوسائٹی اور لانڈھی کورنگی میں چائنا گٹنگ اور ضلع ملیر اور کورنگی میں لاڑکانہ کٹنگ کے نام پر ملیر اور لیاری ندی، لانڈھی وول واشنگ ایریا اور اسکیم 33 میں رفاعی اور دیگر پلاٹوں پر قبضوں اور غیرقانونی تعمیرات کرائی گئیں تو وہ اسی بارہ سالہ دور ہی میں تو کرائی گئیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کی سب سے بڑی بلدیہ کی تباہی و بربادی میں نعمت اللہ خان کی شہری حکومت کے بعد کی شہری حکومت یا کے ایم سی، دونوں ہی کا ہاتھ نمایاں رہا۔ اس دوران چاہے ایڈمنسٹریٹر کا دور ہو یا منتخب سب ہی نے کراچی کو نقصان پہنچانے میں گدھ کی طرح شہر کی بوٹی بوٹی کاٹ کھانے میں کوئی رعایت نہیں کی۔
حالیہ بارشوں میں یونیورسٹی روڈ سے ملحقہ گلستان جوہر بلاک ایک اور دو میں پہاڑی پر ہونے والی غیرقانونی تعمیرات لینڈ سلائیڈنگ کے باعث شدید خطرے میں ہے اور کم و بیش 12 ارب روپے کی تعمیرات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ یہ غیرقانونی تعمیرات تو یقینا امیر لوگوں کی ہوگی وہ اپنے نقصانات کو برداشت کرسکتے ہوںگے، لیکن میں بارشوں سے متاثرہ علاقوں سرجانی ٹائون، اورنگی ٹائون، نارتھ کراچی، نیا ناظم آباد اور نئی کراچی کے علاقوں کا یہاں ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جہاں لوگوں کے گھروں میں پانی داخل ہونے کے بعد وہ وہاں کے باشندے نقل مکانی پر مجبور ہیں یا اپنے تالاب بن جانے والے گھروں میں بھوکے پیاسے ہیں۔ ان علاقوں میں پاک فوج کے سوائے کوئی حکومتی ادارہ موجود نہیں، انہیں خوراک تک الخدمت اور پاک فوج تقسیم کررہی ہے۔ ان حالات میں صوبائی حکمران ٹی وی چینل پر ٹاک شو میں وضاحتیں کررہے ہیں یا بعض پسندیدہ مقامات پر فوٹو سیشن کراتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ حالانکہ وہ کم ازکم ان افسران اور ذمے داروں کا احتساب تو کر ہی سکتے ہیں جنہوں نے اربوں روپے کے فنڈز خرچ کرنے کے باوجود ندی نالے صاف کیے اور نہ ہی ان کی حفاظت کی بلکہ نالوں کی صفائی کے بجائے ان پر تجاوزات قائم کرنے کے ساتھ صفائی ستھرائی کا فنڈز کھاکر آج بھی میئر کے ساتھی ہیں اور صوبائی حکومت کے لاڈلے بنے ہوئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کے ایم سی یا شہری حکومت اور صوبائی محکمہ میونسپل سروسز اور دیگر متعلقہ محکموں میں گزشتہ بارہ سال سے خدمات انجام دینے یا زیادہ عرصہ گزارنے والوں کو فوری طور پر غفلت و لاپروائی کے الزام میں گرفتار کرکے ان کے خلاف تحقیقات کی جائے۔
تاہم اگر اس شہر کے ساتھ اب بھی کوئی حکمران مخلص ہے تو وہ اپنے سہولتوں، مراعات اور تنخواہوں کی قربانی دے کر کم از کم بارش سے متاثرین کی مدد کرے۔ صوبائی حکومت کے وزیراعلیٰ اور وزراء، ایم پی اے وفاق کے کراچی سے تعلق رکھنے والے وزراء اور ایم این ایز کو بھی اپنی تنخواہوں اور مراعات میں کٹوتی کرواکر کراچی کے متاثرہ افراد کی فوری مدد کرنی چاہیے۔ کیونکہ بارشوں سے ہونے والے نقصانات میں ان کا بھی کچھ نہ کچھ قصور ہے۔ قصور تو ویسے کراچی کے اپنے لوگوں کا ہے جو بار بار دھوکا کھانے کے باوجود ایسے افراد کو اپنا نمائندہ مقرر کرتے ہیں جو ووٹ لینے کے بعد صرف اپنے مفادات کی طرف توجہ دیتے ہیں بہت سے عوامی نمائندے اس حلقے میں نظر بھی نہیں آتے جہاں سے لوگوں نے ووٹ دے کر انہیں  بلدیاتی، صوبائی اور قومی اسمبلی کے ایوانوں میں جانے کے قابل بنایا تھا۔ اگر لوگ ایسی غلطیاں دہراتے رہے تو ان کے حالات بھی ایسے ہی رہیں گے پھر اللہ بھی ان کے حالات نہیں بدلے گا۔